سچّا عاشقِ رسول غازی علم دین شہید

سالوں بعد میانی صاحب قبرستان والد صاحب کی قبر پر دعا کے لیے جا رہی تھی۔ راستے میں میں نے ایک ہجوم دیکھا لوگوں کا راستہ بھی بند ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ آج غازی علم دین شہید کی برسی منائی جا رہی ہے چشم تصور سے دیکھتی ہوں ایک عاشق رسول شہید کے جنازے میں سارا بر صغیر امڈ آیا ہو۔ جب غازی علم دین شہید نے نبی پاک کی توہین کرنے والے  ہندو کوکیفر کردار کو پہنچایا اور تاریخ میں اپنا نام روشن کردیا۔ تاریخ اسلام ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ شمع رسالت ﷺکے پروانوں نے نہ صرف حضور پاک ﷺ کی زندگی میں ان سے محبت و اطاعت کی بلکہ حضور ﷺکریم کی زندگی کے بعد بھی آج تک نہ صرف حیات طیبہ و سیرت طیبہ سے والہانہ محبت کرتے ہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ کے اسم مبارک پر مرمٹنے کو عارضی زندگی پر فوقیت دیتے ہیں اور یہی دراصل شمع رسالت ﷺ کے پروانوں کی محبت کا عملی ثبوت ہے۔شمع رسالت ﷺ کے پروانوں میں ایک معتبر نام غازی علم الدین شہیدﷺ کابھی ہے جنہوں نے حب رسول ﷺکے سامنے اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کرکے نہ صرف شہادت کو گلے لگایا اور اپنی آخرت سنوار لی اور رہتی دنیا تک اسلام کے شیدائیوں میں اپنانام رقم کرگئے۔ یہ روایت زبان زد عام ہے کہ علم الدین ابھی ماں کی گو د میں ہی تھے کہ ایک روزان کے گھرکے دروازے پرکسی بزرگ ہستی نے دستک دی اور صدا لگائی۔علم الدین کی والدہ ماجدہ انہیں گود میں اٹھائے اس بزرگ سوالی کو اپنی استطاعت کے مطابق کچھ دینے کیلئے گئیں تو جب اس بزرگ سوالی نے علم الدین کو دیکھا تو بے اختیار اس کے منہ سے نکلا کہ تیرا بیٹا بڑے ہی نصیب والا ہے اور اللہ نے تم پر بڑا احسان کیاہے۔غازی علم الدین شہید ﷺکو6اپریل 1929ءسے قبل ان کے خاندان کے علاوہ کوئی نہیں جانتاتھا لیکن اس تاریخ نے علم الدین کو زندہ جاوید کردیا اور یوں اس دنیا کے ساتھ Soft ان کی عاقبت بھی سنور گئی۔ غازی علم الدین شہید ﷺ نے محبت رسولﷺ کے حقیقی تقاضے نبھاتے ہوئے ایک شاتم رسول کو نیست ونابود کرکے نہ صرف مسلمان قوم کو بیدار کیابلکہ دنیا کی دوسری اقوام کو بھی واضح طور پر سبق دیاکہ وہ بھی ہمارے رسول اکرم ﷺ کا اسم گرامی کبھی بھی بدتہذیبی کے ساتھ اپنے لبوں پر یا کتابوں میں لانے کی ہرگز کوشش نہ کریں کیونکہ تاقیامت ہر دور میں جب جب شاتم رسول پیدا ہوں گے تب تب غازی علم الدین کی تاریخ دہرائی جاتی رہے گی۔ 1929ءکا یہ دور ہندوستان کی تاریخ میں بڑا ہنگامہ پرور دور تھا۔ہندو مسلمانوں کو نیچا دکھانے اور ان کے دین کو رسوا کرنے کیلئے ذلیل ترین ہتھکنڈے استعمال کررہے تھے۔اس زمانے میں ایک ہندو پروفیسر جتنا منی ایم اے نے رسول مقبولﷺ کے متعلق ایک کتاب شائع کی جس میں سرکار دو عالمﷺ کی ذات پر رکیک حملے کئے گئے تھے۔اس کتاب کا ناشر راج پال ناچاریا تھا۔مسلمانانِ پنجاب میں اس کتاب کی اشاعت پر شدید غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی اور ا±نہوں نے بیک زبان مطالبہ کیا کہ یہ کتاب فوراً ضبط کی جائے اور اس کے مصنف اور ناشر کو سخت سزادی جائے۔علم الدین ان حالات سے بے خبر تھے۔ ایک روز وہ حسب معمول کام پر گئے ہوئے تھے ،غروب آفتاب کے بعد جب و ہ واپس گھر جارہے تھے تو دلی دروزاہ میں لوگوں کاایک ہجوم دیکھا ،ایک جوان کو تقریر کرتے ہوئے دیکھا۔وہ ر±کے کچھ دیر کھڑے سنتے رہے لیکن ان کے پلے کوئی بات نہ پڑی۔قریب کھڑے صاحب سے انہوں نے دریافت کیا تو ا±نہوں نے علم الدین کو بتایا کہ راج پال نے نبی کریمﷺ کے خلاف کتاب چھاپی ہے اس کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔کچھ دن گزرنے کے بعد علم الدین حسب معمول کام سے گھر واپس آئے۔ اس دن وہ بہت تھکے ہوئے تھے رات کو جلدی سوگئے اس روز خواب میں ایک بزرگ انہیں ملے اور انہیں کہا کہ علم الدین تم ابھی تک سورہے ہو تمہارے نبی کریمﷺ کی شان کے خلاف اسلام دشمن کھلم کھلا کاروائیوں میں لگے ہوئے ہیں، ا±ٹھو جلدی کرو۔ علم الدین ہڑبڑاکر ا±ٹھ بیٹھے۔ رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی ان کا تمام جسم پسینے میں شرابور تھا۔ 6اپریل 1929ءکو تیز تیز قدم ا±ٹھاتے ہوئے آپ انار کلی میں داخل ہوگئے اس وقت دن کے ایک بج کر پچاس منٹ ہوئے تھے۔انارکلی میں ہسپتال روڈ پر عشرت پبلشنگ ہاو¿س کے سامنے ہی راج پال کا دفتر تھا جہاں وہ بیٹھا کرتاتھا۔اس وقت راج پال کے دو ملازم کدارناتھ اور بھگت رام بھی وہاں موجود تھے۔کدار ناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہاتھا۔راج پال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ والے جوان کو دفتر کے اندر داخل ہوتے دیکھ لیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ موت اس کے اتنے قریب آچکی ہے۔علم الدین سیدھے اسی کی طرف آرہے تھے ،راج پال کے سامنے پڑی میز کے قریب آکر راج پال اور موت کے درمیان اب صرف چند بالشت کا فاصلہ رہ گیا تھا، اسی لمحے بھگت رام الماری میں رکھی کتابوں کی جھاڑ پونچھ کیلئے بڑھا۔علم الدین راج پال کو پہچان گئے تھے۔ پلک جھپکنے میں انہوں نے ڈبّ سے چھری نکالی ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور پھر راج پال کے جگر پر جالگا۔چھری کا پھل راج پال کے سینے میں اتر چکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کار گر ثابت ہواکہ راج پال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جا پڑا۔شاتم رسول کو قتل کرنے کے بعد علم الدین کو چین آیا۔ غازی علم دین شہید کا لاہور کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں تقریبا چھ لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی اور جنازہ ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔ علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا اور اس موقع پر فرمایا یہ لوہاروں کا بیٹا ہم سب پڑھے لکھے لوگوں سے بازی لے گیا آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔

ای پیپر دی نیشن