لیاقت بلوچ
نائب امیر جماعتِ اسلامی پاکستان
سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل پاکستان
07/ اکتوبر 2023ءکو حماس کے ”طوفان الاقصٰی“ آپریشن کو جواز بناکر اہلِ غزہ پر صیہونی دہشت گرد ناجائز اسرائیلی ریاست نے قہر ڈھادی ہے۔ ایک ایسی قہر جس سے اہلِ فلسطین پر گزشتہ سات دہائیوں سے جاری مجموعی اسرائیلی بربریت بھی شرماگئی ہے۔ بلکہ حالیہ صیہونی درندگی نے تو تاریخِ عالم کی سفاکیوں کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ پہلے سے ہی تین اطراف سے سخت ترین ناکہ بندی اور سرحدی باڑوں میں گِھری غزہ پٹی کا مکمل محاصرہ کرکے، مسلسل ایک ماہ سے اہلِ غزہ پر ضروریاتِ زندگی کی تمام اشیاء، خوراک، پانی، ادویات، بجلی کی مکمل بندش اور مواصلاتی رابطوں کو منقطع کرکے صیہونی درندے دن رات فضائی بمباری اور زمینی گولہ باری کا نشانہ بنارہی ہے، جس کے نتیجے میں 23 لاکھ آبادی پر مشتمل دنیا کے اس انتہائی گنجان آباد علاقے کی آدھی عمارتیں مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ 10ہزار معصوم جانیں، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے، جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں، 25 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہیں، ہزاروں لوگ اب بھی بدترین گولہ باری اور فضائی بمباری کا نشانہ بننے والی اِن عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہیں، غزہ کی نصف آبادی بے گھر ہوکر سڑکوں، ہسپتالوں، سکولوں، پناہ گزین کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ صیہونی بربریت کی انتہا دیکھیں کہ اِن پناہ گاہوں کو بھی مسلسل بمباری کا نشانہ بناکر فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ جبالیہ، البریج اور المغازی پناہ گزین کیمپ مسلسل صیہونی بمباری کے نشانے پر ہیں، جہاں روزانہ سیکڑوں معصوم، بچے، خواتین اور عام نہتے فلسطینی عوام اسرائیلی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ 07 / اکتوبر سے اب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کی فلسطین پناہ گزینوں کے لیے ایجنسی کی 48 تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے۔ بچوں کے حقوق سے متعلق اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ غزہ کو معصوم فلسطینی بچوں کا قبرستان بنادیا گیا ہے۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران غزہ پر جتنا بارود برسایا گیا وہ ایٹم بم سے بھی زیادہ تباہ کن تھا۔ اسرائیلی اعداد و شمار کی بنیاد پر عرب میڈیا کی جانب سے شائع کردہ تخمینے کے مطابق غزہ میں ہر گھنٹے میں 15 فلسطینی شہید ہورہے ہیں جن میں سے نصف تعداد بچوں کی ہوتی ہے جبکہ اِسی عرصہ کے دوران زخمیوں کی تعداد میں 35 افراد کا اضافہ ہورہا ہے۔ غزہ پر ہر گھنٹے میں 42 بم گرائے جارہے ہیں جن سے ہر گھنٹے 12 عمارتیں تباہ ہورہی ہیں۔ خود صیہونی فوج کے دعووں کے مطابق صرف زمینی کارروائی میں اب تک ڈھائی ہزار سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق صرف ایک ہفتے میں غزہ پر اسرائیل نے اتنے بم برسائے جتنے امریکہ نے افغانستان میں ایک سال میں گرائے تھے، جبکہ گنجان شہری آبادی ہونے کے باعث اس بمباری سے انسانی المیے کاپیمانہ کئی گنا وسیع ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنگی جرائم کی عالمی عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اِن بدترین جنگی جرائم کو روکنے اور مجرم اسرائیل کو کٹہرے میں لانے میں ناکام ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذرائع نے اعلان کیا ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے علاقے میں کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے۔ غزہ مکمل طور پر مسلسل بمباری کی زد میں ہے۔ انسانیت سسک رہی ہے، ہسپتال تباہ ہوچکے ہیں۔ شہریوں کے لیے انسانی زندگی کے ہولناک المیے رونما ہو رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں زخمیوں کی بڑی تعداد کے لیے ادویات اورمیڈیکل آلات ختم ہوگئے ہیں۔ اسرائیل نے پانی اور بجلی کانظام منقطع کردیا ہے اور خوراک کی قلت ہولناک صورت حال اختیار کر گئی ہے۔ اسرائیل تمام عالمی قوانین اورعالمی انسانی حقوق چارٹر کی پامالی کے جرائم کا ارتکاب کررہاہے۔ اسرائیلی جنگی جرائم کا ہاتھ روکنا عالمی برادری کا فرض ہے۔ اسرائیلی اخبار نے رپورٹ دی ہے کہ غزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کو 50 ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔
فلسطینیوں کی اس نسل کشی کی مہم میں حسبِ دستور قاتل اور غاصب اسرائیل کو امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، فرانس وغیرہ کی بھرپور تائید و مدد حاصل ہے۔ امریکہ نے اپنے بحری بیڑے، جنگی جہاز، ہر قسم کا اسلحہ و گولہ بارود اور کمانڈوز بھیج کر صیہونیوں کو فلسطینیوں کے قتلِ عام کا کھلا لائسنس جاری کردیا ہے۔ امریکی کانگریس نے فوری طور پر ساڑھے 14 ارب ڈالر امداد کی منظوری دے کر اس قتلِ عام کو جاری رکھنے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ برطانوی وزیراعظم بھی اہلِ غزہ کی نسل کشی کی اس سفاکانہ مہم میں امریکہ سے پیچھے نہیں رہے۔ برطانوی وزیراعظم رشی سونک خود اسلحہ سے بھرے جہاز میں بیٹھ کر اسرائیل پہنچے اور صیہونی دہشت گردوں کو تھپکی دیتے ہوئے کہا کہ ہم بھی اس قتلِ عام میں تمہارے شانہ بشانہ ہیں، تمہیں کسی قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔دوسری جانب اقوامِ متحدہ میں جنگ بندی سے متعلق روس اور چین کی قراردادوں کو ویٹو کرکے امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے بعض ممالک نے ایک بار پھر ظلم، تعصب اور جانب داری پر مبنی اپنے انتہائی شرمناک، انسانیت سوز کردار کو د±ہرایا ہے۔ غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلاءپر عالمی برادری کی حمایت اور دانستہ چشم پوشی بھی ستم بالائے ستم کے مترادف ہے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے صیہونیوں اور اس کے مغربی سہولت کاروں کا ظلم و ستم سہنے والے فلسطینیوں کے لیے اِس بار غزہ پر اسرائیلی جارحیت اس لیے بھی زیادہ تباہ کن اور فیصلہ کن صورت اختیار کرگیا ہے کہ سعودی عرب، یو اے ای سمیت دیگر پڑوسی عرب مسلم ممالک، جن پر وہ تکیہ کیے بیٹھے تھے اور جن سے ا±نہیں بہت ساری ا±میدیں وابستہ تھیں، وہ بھی بالآخر صیہونی حکومت کے بچھائے جال میں پھنس گئے ہیں۔ معاہدہ ابراہیمی کے نام پر عرب -اسرائیل معاہدہ کے تحت مشرقِ وسطیٰ کا دیرینہ تنازعہ حل کیے بغیر اسرائیل کیساتھ تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کرکے اِن عرب ملکوں نے فلسطینیوں کے پیٹھ میں نہیں بلکہ سیدھا ا±ن کے سینے میں خنجر گھونپا ہے، جس کے لیے تاریخ ا±نہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔
اس تمام تر صورتِ حال کے باوجود اہلِ غزہ کے حوصلے بلند ہیں۔ فلسطینی بچے، نوجوان اور خواتین آج بھی اپنے شہیدوں اور زخمیوں کو ملبے تلے نکالتے یہی صدائیں بلند کررہے ہیں کہ ”حسبنا اللہ و نعم الوکیل“۔ حماس کے مجاہدین آج بھی پ±رعزم ہیں کہ وہ غزہ پٹی کو غاصب اور قاتل صیہونی فوج کا قبرستان بناکر دم لیں گے۔ اب تک کے حماس کے تابڑ توڑ حملوں اور کارروائیوں نے صیہونی فوج کے اوسان خطا کرکے رکھ دیے ہیں۔ حماس نے غزہ پر حملہ آور صیہونی فوج پر کامیاب حملے کرکے جدید ٹیکنالوجی سے لیس درجنوں اسرائیلی ٹینک اور فوجی گاڑیاں تباہ کردیے ہیں اور ا±ن میں موجود اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل اور زندہ بچ جانے والوں کو یرغمال بنالیا ہے۔ خود صیہونی حکومت اپنے فوجیوں کے قتلِ عام اور بھاری جانی و مالی نقصان کا برملا اظہار کررہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں کے جنازوں پر پورے اسرائیل میں صفِ ماتم بِچھ گیا ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارکان کو جب اسرائیلی فوج کے بھاری جانی و مالی نقصان کی فوٹیج دکھائی گئیں تو وہ دھاڑے مار مار کر رونے لگے۔ خود یہودی عوام بھی صیہونی حکومت کی بربریت کے خلاف اسرائیل کے گلی کوچوں میں سراپا احتجا ج ہیں اور وہ نیتن یاہو کو نہ صرف فلسطینیوں بلکہ اسرائیلی عوام اور فوجیوں کا قاتل قرار دے کر ا±س سے بلاتاخیر مستعفی ہونے اور اسرائیلی حکومت سے فی الفور جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ جنوبی اسرائیل کی اہم بندرگاہ کا حامل شہر ایلات، ایٹمی تنصیبات والے شہر دیمونہ سے لے کر غزہ پٹی سے ملحقہ شہر سدیروت، عسقلان، وسطی اسرائیلی شہر اَشدود، تل ابیب اور لبنان سے ملحقہ شمالی علاقے کریات شمعونہ تک کا علاقہ حماس، حزب اللہ اور یمن کے حوثیوں کی کامیاب کارروائیوں اور مسلسل راکٹوں کے نشانے پر ہیں اور اِن تمام شہروں میں نہ صرف حساس اسرائیلی دفاعی تنصیبات کو بھاری نقصان پہنچاکر تباہ کردیا گیا ہے بلکہ بڑی بڑی عمارتیں اور فوجی تنصیبات اب بھی شدید آگ کی لپیٹ میں ہیں۔
دنیا بھر کے مسلم ممالک سمیت مغربی اقوام بشمول امریکی و برطانوی عوام بھی غزہ کے نہتے عوام پر صیہونی یلغار کے خلاف مسلسل سراپا احتجاج ہیں اور وہ بار بار لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اپنی حکومتوں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ ظلم و ستم بلاتاخیر بند کیا جائے۔ حماس کی طرف سے 07 اکتوبر 2023ءکی دراندازی کو جواز بناکر 23 لاکھ لوگوں کی نسل کشی کرنا کسی طور پر حقِ دفاع نہیں کہلایا جاسکتا۔ بلکہ ناجائز غاصب ریاست ہونے کے ناطے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کی ر±و سے بھی دفاع کا کوئی حق حاصل نہیں۔ جبکہ دوسری طرف حماس اور دیگر فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی مسلح جدوجہد کو اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں نے جائز قرار دیا ہے۔ مغربی اور اسرائیلی میڈیا غزہ پر اسرائیلی بربریت کو حماس کے 07 اکتوبر 2023ءکی دراندازی کا نتیجہ قرار دے کر دنیا بھر کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرکرہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حماس کا یہ حملہ گزشتہ سات دہائیوں سے فلسطینی عوام پر جاری اسرائیلی ظلم و بربریت، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی،اسے یہودی شناخت دینے اور ہیکل صہیونی کی تعمیر کے اپنے ایجنڈے کی طرف بہت تیزی سے آگے بڑھنے، نیز فلسطینیوں بالخصوص غزہ کی پٹی کو گذشتہ 15 سال سے دھیرے دھیرے موت کی طرف دھکیلنے کے منصوبہ پر کاربند رہنے کا نتیجہ ہے۔ روز گار سے محروم فلسطینیوں کی تیسری نسل مسلسل اسرائیلی بربریت اور محاصرے کی وجہ سے محرومیوں کاشکار ہے، سیکڑوں نوجوان جبری ترک وطن کی وجہ سے سمندر ی مچھلیوں کا لقمہ بن گئے ہیں۔ ایسے میں عالمی اداروں اور عالم اسلام نے فلسطینیوں کو بے سہاراچھوڑ دیا ہے۔ اسرائیل کی قیدمیں گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطینی قیدی ذلت آمیز، وحشیانہ اذیتوں کاشکار ہیں۔ ہررو ز کئی کئی بار موت کی چکی میں پسنے والے فلسطینی قیدی براز و گندگی سے لت پت ڈیڑھ میٹر کے سیل میں 20، 20 سال سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں۔ اِن وجوہات کے علاوہ حماس کو یہ خفیہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ اسرائیل”صدی کی ڈیل“ نامی نام نہاد امریکی منصوبہ کے مطابق غزہ پر چڑھائی کی تیاری کرچکا ہے۔ اس لیے حماس نے دشمن کے اچانک حملے کے سدباب کے لیے پیشگی حقِ مزاحمت کے استعمال کا فیصلہ کیا۔ فلسطینی 2014ءسے ہی اس قسم کے اچانک اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں۔
برطانیہ اور امریکہ عرصہ دراز سے اپنے سامراجی ایجنڈا کی تکمیل کے لیے دنیا بھر میں انسانوں بالخصوص مسلمانوں کا قتلِ عام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 1917ءمیں بالفور معاہدہ اور 1918ءمیں جنگِ عظیم کے خاتمہ کے بعد برطانوی مینڈیٹ کے تحت فلسطین میں یہودیوں کی آمد اور آبادکاری کی اندھی طاقت سے ناجائز سرپرستی کی گئی جو ابھی تک جاری ہے۔ امریکہ کی طرف سے اقوامِ متحدہ میں بار بار ویٹو پاور کے حق کے ناجائز استعمال نے اِن ممالک کے دوہرے عالمی معیارات خود اپنے ہی عوام پرآشکار کردیے ہیں۔اسرائیل کی ناجائز ریاست کے خلاف دنیا بھر کے امن و انسانیت پسند عوام کے اندر فلسطینی عوام کی حمایت پر مبنی جذبات اور احساسات ہمیشہ سے زندہ ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح، مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال، مفکر اسلام مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور دردِ دل رکھنے والے دیگر پاکستانی سیاسی قائدین نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقِ آزادی کو تسلیم کرنے، اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کی مخالفت کی بات کی اور د±نیا کو باور کرایا کہ مشرقِ وسطیٰ کا امن فلسطین کی آزادی سے وابستہ ہے۔ ارضِ فلسطین میں اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم نہ صرف اس پورے خطے بلکہ دنیا بھر کے امن کے لیے تباہ کن ہیں۔ ناجائز اسرائیلی ریاست کا وجود دراصل د±نیا بھر میں بدامنی اور فساد کی بنیادی وجہ ہے۔ صیہونی اسرائیلی قیادت ہی عالمی سطح پر بدامنی اور دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ غزہ میں نسل کشی کی حالیہ اسرائیلی مہم کے خلاف دنیا بھر میں مسلمانوں، عیسائیوں اور خود یہودیوں کی طرف سے بھرپور احتجاج اور مظاہروں نے یہ ثابت کردیا کہ دنیا بھر کے عوام فلسطینیوں کے ساتھ اور اسرائیل کے خلاف ہیں۔ اس لیے اِن نام نہاد عالمی طاقتوں کو یہ بات اب اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انسانیت کے قتلِ عام کایہ سلسلہ روکنا ہوگا ورنہ اس ظلم کے خلاف ا±ن کے اپنے ہی عوام میں موجود غم و غصہ ایک بہت بڑی چنگاری کی شکل اختیار ان ظالم حکمرانوں کے اقتدار کے خاتمے اور کسی نئے انقلاب کا باعث بنے گا۔
مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر طویل مدت سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب مسائل ہیں۔ یہ صورتِ حال اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی دیگر عالمی تنظیموں اور عالمی برادری کے لیے شرمندگی کا باعث اور انسانی حقوق کے دعویداروں کے لیے چیلنج ہیں کہ وہ سات دہائیوں سے زائد گزرنے کے باوجود کشمیر و فلسطین کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب بلاتاخیر اِن دیرینہ مطالبات کے حوالے سے کیے گئے بین الاقوامی عہد، وعدوں اور دعوو¿ں کی پاسداری کی جائے اور دنیا بھر کے دیگر آزاد اقوام کی طرح فلسطینی و کشمیری عوام کو بھی اپنی آزاد مرضی سے جینے کا حق دیا جائے، تاکہ عرصہ دراز سے جاری ظلم و بربریت کا خاتمہ ہو۔ عالمی اداروں پر مسلمانوں کے اعتماد کی بحالی صرف ا±سی صورت ممکن ہے جب یہ ادارے اور اقوام دوہرے معیارات ختم کرکے کروڑوں انسانوں کے د±کھ درد کا احساس کریں۔ مسئلہ فلسطین و کشمیر کے حوالے سے عالمی اداروں، ممالک کی مجرمانہ غفلت اور خود عالمِ اسلام کی معنی خیز خاموشی ناجائز اسرائیلی ریاست اور غاصب بھارتی جبر و تسلط کو مزید شہہ دینے کا سبب ہے، جس کے بھیانک نتائج دنیا بھر کے سامنے ہیں۔ ظلم و جبر کے آگے سرنڈر کرنا کسی صورت فلسطینی و کشمیری عوام کو قبول نہیں۔ اسرائیل و بھارت کی طرف سے جاری ظلم و بربریت کا ہی نتیجہ ہے کہ جو آگ ارضِ فلسطین اور خطہ کشمیر میں عرصہ دراز سے لگائی گئی، وہی آگ آج پوری د±نیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ عالمی قوتیں مفادات کے گھناو¿نے کھیل کے تحت د±نیا کو تقسیم در تقسیم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں، تاہم ا±نہیں اب یہ جان لینا چاہیے کہ اسرائیل کی ناجائز ریاست کی سرپرستی کرکے وہ اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ا±ن کی یہ روِش دنیا بھر کے امن کو تہہ و بالا کرنے، دہشت گردی کو فروغ دینے اور کروڑوں انسانوں کے انسانی حقوق کی پامالی سمیت دنیا بھر کے اقوام کے درمیان نفرت اور تعصب کو ہوا دینے کا باعث ہے۔ کسی قوم کو ا±س کے جائز حق سے محروم رکھنا دہشت گردی کی بدترین شکل ہے۔ د±نیا بھر میں جاری اقتصادی بدحالی، جنگ و جدل، بدعنوانی اور ناانصافی کی بنیادی وجہ ہی عدل و انصاف کا یہ دوہرا معیار ہے جو مغرب و امریکہ نے عرصہ دراز سے اپنا رکھا ہے۔
اگر ہم واقعی اس کرہءارض کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل تابناک بنانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ضروری ہے کہ
1۔ ہم سب مل بیٹھ کر ان دیرینہ بین الاقوامی تنازعات کے بلاتاخیر حل کی طرف سنجیدہ قدم ا±ٹھائیں۔ ایسا کوئی بھی سنجیدہ قدم ا±ٹھانے سے قبل پہلی اور بنیادی شرط یہ ہے کہ تمازعہ کے بنیادی فریق، خواہ وہ فلسطینی عوام ہوں، کشمیری عوام یا دنیا بھر میں اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے برسرِپیکار دیگر اقوام کے حقِ آزادی کو تسلیم کیا جائے۔
2۔ مسلم دنیا اور اس کے حکمرانوں کو بھی دو رنگی، منافقت اور دوغلے پن پر مبنی پالیسی کو ترک کرنا ہوگا اور پوری قوت کیساتھ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ لگ بھگ 2 ارب آبادی اور دنیا کے قریباً نصف وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال 57 اسلامی ممالک کے حکمران اگر آج اپنے دینی بھائیوں کا ساتھ نہیں دیں گے تو کل روزِ محشر وہ اللہ رب العزت اور آقائے نامدار خاتم الانبیاءوالمرسلین حضرت محمد مصطفٰی کے روبرو مجرم بن کر ہی کھڑے کیے جائیں گے۔
3۔ حالیہ عرصہ میں اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے والے یا اس پر سوچ بچار کرنے والے مسلم ممالک کے لیے غزہ جیسے واقعات موقع فراہم کررہے ہیں کہ وہ اپنے اقدامات پر نظر ثانی کریں۔ فلسطین پر اسرائیلی مو¿قف تبدیل کیے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا، تجارتی و سفارتی تعلقات کی بحالی درحقیقت 75سال سے جاری اسرائیلی مظالم وغیر قانونی قبضہ کو سندِ قبولیت دینے کے مترادف ہے۔ قبلہ اول ہاتھ سے گیا تو مدینہ منورہ،مکہ مکرمہ کے لیے بھی صہیونی خطرہ حقیقت بن جائے گا۔
4۔ غزہ پر اسرائیلی، صہیونی اور امریکی برطانوی و ہندوستانی ظلم،قتل وغارت گری کے اقدامات پر پاکستان کا ریاستی مو¿قف اس کے شایان شان نہیں۔ ایٹمی صلاحیت کے حامل اسلامی ملک سے ملتِ اسلامیہ کی ہمیشہ بڑی توقعات رہتی ہیں، مسئلہ فلسطین پر قائداعظم کا اصول آج بھی پاکستان کی پالیسی رہنی چاہیے۔ حکومت پاکستان مضبوط مو¿قف کے ساتھ اپنا سفارتی، سیاسی اور انسانی خدمات کاجرا¿ت مندانہ کردار ادا کرے۔
5۔ مسلم دنیا اہل فلسطین کو خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے ”عالمی فلسطین فنڈ“قائم کرے۔ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر رفاہ بارڈر اور مغربی کنارہ کے دیگر راستوں کو کھلا رکھ کر اہلِ غزہ کے لیے ضروری خوراک، ادویات اور دیگر ساز و سامان کی مسلسل فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اقوام متحدہ امدادی قافلوں کو اسرائیلی بمباری سے محفوظ بنانے کے لیے ٹھوس اور مو¿ثر اقدامات کرے۔
الخدمت فاو¿نڈیشن پاکستان اور دیگر فلاحی ادارے، بالخصوص غزہ کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف کا بارود و آہن کی بارش، جنگی طیاروں کی دن رات بمباری اور گھن گرج، ٹینکوں اور توپوں کی گولہ باری اور اس کے نتیجے میں ہر روز سیکڑوں شہادتوں کے باوجود عزم و ہمت کا پیکر بن کر غزہ میں امدادی سرگرمیاں جاری لائقِ تحسین اور جرا¿تمندانہ کام ہے۔ ہم غزہ میں صیہونی بربریت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر اپنے فلسطینی بچوں، بہن، بھائیوں کو خوراک، ادویات، علاج معالجے کی سہولت فراہم کرنے والے اِن سرفروشوں کے عزم و ہمت کو سلام پیش کرتے ہیں۔
پاکستان بھر میں سیاسی، دینی، سماجی، سول سوسائٹی کے یکجہتی فلسطین مظاہرے عوامی جذبات کی ترجمانی ہے۔ اہل کراچی کی طرف سے یکجہتی فلسطین کے لیے بڑے احتجاجی مظاہرے، اسلام آباد اور لاہور میں ”علمائ ومشائخ قومی فلسطین کانفرنسز“، اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ کے باہر تاریخ ساز ”غزہ ملین مارچ“ نے یہ ثابت کردیا کہ ہمیشہ کی طرح ہم اپنے فلسطینی بچوں، بہن، بھائیوں کے ساتھ ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی جیل سے سب سے بڑی مقتل گاہ تک
Nov 08, 2023