امریکہ کو عظیم تر بنائیں گے‘ صدر ٹرمپ۔
امریکی پہلے ہی خود کو برتر سمجھنے اور دوسروں کو کمتر سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ یہ خیال فاسد انکے رگ و پے میں بری طرح سرایت کرگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ باقی ممالک کو اپنا باجگزار خیال کرتے ہیں۔ دوستی کی بجائے حاکم بننے کا شوق رکھتے ہیں۔ یوں اسکے دوست کم اور دشمن زیادہ ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں تو یہ احساس برتری کچھ زیادہ ہی رچابسا ہے۔ رویہ سے وہ ہیں بھی گرم مزاج اور صدر سے زیادہ کاﺅبوائے بننے کی کوشش میں سب کو رگیدتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اب امریکی بھی کوئی دودھ میں دھلے ہوئے نہیں‘ انہیں بھی یہی سب کچھ .... مزہ دیتا ہے۔ لہٰذا ٹرمپ کو دوبارہ کامیاب کراکے اب جشن منا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ اب ٹرمپ صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکہ کو عظیم تر بنائیں گے۔ تو ہاتھ کنگن کو آرسی کیا۔ ویسے بھی تو اکثر ممالک اسے فتنہ عظیم ہی سمجھتے ہیں جسے دوسرے کے معاملات میں دخل دینے کا بہت شوق ہے۔ اس دخل درمعقولات کی وجہ سے اسکی مخالفت کی جاتی ہے۔ اسی عظیم تر کہلانے کے شوق میں وہ پہلے روس اب چین کیخلاف عالمی محاذآرائی پیدا کر رہا ہے۔ اس پالیسی کو اپنا کر اس نے پہلے روس کا زور توڑا اب چین کو سبق سکھانے کی کوشش کررہا ہے۔ مگر کیا ضروری ہے کہ ہر بار شر ہی غالب آئے۔ خیر بھی تو غالب آہی جاتا ہے۔ اسی لئے چھوٹے اور کمزور ممالک یہی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اس عظیم فتنہ سے دور رہیں۔
کشمیر اسمبلی میں گھمسان کا رن ، مار کٹائی۔
اب اس سے بڑا طمانچہ بھارت کے منہ پر کیا ہوگا کہ جس ریاست کو پہلے طاقت کے زور اور اب غیرآئینی طریقے سے اس نے ہڑپ کیا اور اسکی خصوصی حیثیت ختم کر کے ہضم کرنے کی کوشش کی۔ اس ریاست کے بیس سال بعد چاہے ڈھونگ ہی سہی‘ الیکشن ہوئے مگر اسکے ذریعے بھی ایوان میں پہنچنے والے دل جلے کشمیری سیاستدانوں نے افتتاحی اجلاس میں ہی بھارت کو جوتا دکھا دیا۔ ارکان نے کثرت رائے سے بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35اے کو ختم کرنے کا لوک سبھا کافیصلہ رد کرتے ہوئے کشمیر کی پہلی حیثیت بحال کرنے کی قرارداد منظور کی۔ اگرچہ بی جے پی کے ارکان نے اسکی شدید مخالفت کی شور مچایا، کیونکہ یہ انہی کی گورنمنٹ کا کارنامہ تھا۔ اس کے ارکان اور پی ڈی کے ارکان میں ہاتھا پائی مار کٹائی ہوئی جس نے اس پہلے اجلاس میں بھی سرینگر کے گلی کوچوں کا منظر دکھا دیا۔ یہ کشمیری ہم سے خوش ہیں کہنے والےبھارتی حکمرانوں اور ان کےحامیوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ دوسری طرف کانگرس نے بھی اس حیثیت کی بحالی کا نعرہ لگایا ہے۔ یوں نیشنل کانفرنس نے اپنی روایتی حلیف کانگرس کے ساتھ مل کر کامیابی حاصل کی۔ اب وہ اس قرار داد کی بدولت ، کشمیریوں کو پھر بے وقوف بنائے گی۔ پہلے عمر فاروق کے دادا شیخ عبداللہ نے اسی طرح کشمیریوں کو بے وقوف بنا یا تھا کہ ہم نے بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت حاصل کی ہے۔ اب پوتا اس حیثیت کی بحالی کا ڈرامہ رچا رہا ہے۔ جبکہ سب جانتے ہیں کہ یہ انکے بس کی بات نہیں۔ تاہم بھارت کو کشمیریوں کے موڈ کا پتہ چل گیا ہے۔ کہ وہ رام نہیں ہوئے۔
ٹرمپ کی بہو اور بیٹے سے عمران کی رہائی کیلئے بات کروں گا‘ زلفی بخاری۔
اب انکل ٹرمپ جسے ہم انکل ٹام اور چچا سام بھی کہہ سکتے ہیں‘ دوبارہ برسراقتدار آئے ہیں تو پی ٹی آئی والوں کو یوں لگ رہا ہے‘ گویا
غنچہ شوق لگا ہے کھلنے
پھر تجھے یاد کیا ہے دل نے
انہیں امید ہے کہ ٹرمپ سب سے پہلے بعد از حلف برداری یا قبل از گرفتاری انکے مرشد کی رہائی کی بات کریں گے۔ پاکستان پر دباﺅ ڈالیں گے۔ شاید ٹرمپ کو اور کوئی کام باقی نہیں رہا۔ اب وہ یہی کام کریں گے۔ شاید کپتان بھی یہی چاہتے ہیں کہ ٹرمپ انہیں جیل کی قید سے رہائی دلوائیں تاکہ بعد میں وہ عوام اور پاکستان کو اسی امریکی غلامی سے نجات سکیں‘ جس نے اسے چھڑایا ہے۔ یہ عجیب منطق ہے‘ تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوا دینا والی بات ہے۔ جس کی غلامی سے نجات چاہتے تھے ، اس سے اپنی رہائی اور جیل سے نجات میں مدد طلب کر رہے ہیں۔ اب زلفی بخاری جو اپنے مرشد کے سامنے ہمیشہ نمبر بنانے میں لگے رہتے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ وہ امریکہ میں صدر ٹرمپ کے قریبی لوگوں اور انکی بہو اور بیٹے سے مل کر کپتان کی رہائی کی بات کریں گے تاکہ امریکی سینیٹروں کی طرح صدر ٹرمپ بھی پاکستان پر کپتان کی رہائی کیلئے دباﺅ ڈالیں۔ زلفی بخاری کا جو دل چاہے کریں اب تک وہ لندن میں بھی تو یہی کرتے رہے ہیں۔ اب واشنگٹن جا کر بھی شوق پورا کر لیں۔ بس دھیان رہے اگر ٹرمپ کی بہو یا بیٹے یا کسی معاون نے اس نے پوچھ لیا‘ مدد تو ہم کریں مگر وہ جو سائفر والا جھوٹا ڈرامہ کرکے امریکہ کو بدنام کیا گیا‘ پاکستانیوں میں امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کی گئی‘ اس کا کیا جواب ہوگا زلفی بخاری کے پاس۔ اب شاید وہ اپنے مرشد کی طرف سے غلامی یا معافی کی کوئی نئی دستاویز یا عمرانی معاہدے پر سرتسلیم خم کرتے ہوئے بطور ضامن دستخط کرکے” ہاں میں غلام ہوں“ پہ مہر تصدیق ثبت کرینگے کیونکہ وہ جو کچھ کرتے ہیں‘ بقول خود انکے مرشد کے کہنے پر کرتے ہیں۔
راول ڈیم کے اردگرد تعمیرات کی اجازت نہ دی جائے‘ سینیٹ قائمہ کمیٹی۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ہر اچھی چیز کو خراب کرنے میں زیادہ تیز رفتاری دکھاتے ہیں۔ کسی پارک‘ نہر‘ دریا کے کنارے جھیل کے آس پاس یا تفریحی مقام پر دیکھ لیں تجاوزات کے پہاڑ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اسکی وجہ سے ماحول تو آلودہ ہوتا ہے‘ گندگی بھی پھیلتی ہے‘ اس سے بھی بڑھ کر ان کاروباری مراکز اور کچی آبادیوں کے گندے سیوریج کے پانی کی بھاری مقدار میں شامل ہو کر ان دریاﺅں‘ نہروں اور جھیلوں کو زہریلا بنا رہی ہے۔ اب راول ڈیم اور خانپور ڈیم کے اردگرد بھی صورتحال نہایت ابتر ہے۔ وہاں سیرو تفریح کیلئے جانے والے جانتے ہیں کہ ان خوبصورت تفریحی مقامات کے اردگرد بے شمار آبادیوں اور کاروباری مراکز کا گندا پانی جھیلوں میں شامل ہوتا ہے جس سے ناصرف ان کا پانی زہریلا ہو رہا ہے بلکہ آبی حیات بھی متاثر ہو رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہی پانی اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہری استعمال کر رہے ہیں جوکسی صورت بھی پینے کے قابل نہیں رہا۔ اس حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ وہ بتائے اس بارے میں کیا اقدامات کر رہی ہے۔ اگر سخت اقدامات نہ ہوئے تو خانپور ڈیم اور راول ڈیم بھی دریائے راوی کی طرح گندے پانی کے جوہڑ بن جائیں گے۔ راوی جس کے اردگرد لاہور شہر آباد ہے‘ کبھی اپنی روانی اور بہاﺅ کی وجہ سے سیر و تفریح کا مرکز ہوتا تھا‘
آج یہ دریا نہیں ایک گندے نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ دریا کے کنارے بھی جھیلوں کی طرح کارخانوں‘ تجاوزات اور ناجائز تعمیرات و کچی آبادیوں پر پابندی لگائی جائے تاکہ ان کا گندا پانی دریا یا جھیلوں میں شامل نہ ہو پائے۔
جمعة المبارک ‘ 5 جمادی الاول 1446ھ ‘ 8 نومبر2024
Nov 08, 2024