پاکستان جس کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے، اپنی تاریخ کے ایک اہم لمحے پر کھڑا ہے کیونکہ پاکستان کو اقتصادی عدم استحکام، وسیع پیمانے پر بے روزگاری، ماحولیاتی بحران، اور مہارت کے بڑھتے ہوئے فرق جیسے شدید چیلنجوں کا سامنا ہے ان حلات میں اور مذکورہ چیلنجز کے پیش نظر ملک کا آگے بڑھنے کا راستہ اپنے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو کھولنے اور ان سے استفادہ کرنے پر منحصر ہے۔ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے 2013ءمیں ایک بصیرت انگیز اقدام کرتے ہوئے پرائم منسٹر یوتھ پروگرام (پی ایم وائی پی ) شروع کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے 2022ءاور 2024ءمیں دوبارہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعداس پروگرام کی روح کو پھر سے تقویت دی۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام ایک سے بھی زیادہ کئی اقدامات کا سلسلہ ہے جو تبدیلی لانے والی ایسی طاقت ور قوت ہے جو توانائی، تخلیقی صلاحیتوں، اور نوجوان پاکستانیوں کی لچک سے استفادہ کرنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام تعلیم، مشغولیت، روزگار، اور ماحولیاتک ت کے ذریعے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی تشکیل اور ملک کی ترقی میں بامعنی حصہ ڈالنے کے اہم مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ پروگرام محض آج کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ نوجوان نسل کی ذہانت اور قیادت سے چلنے والے ایک متحرک اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھنے کے بارے میں ہے۔جو چیز پی ایم وائی پی کو پچھلے اقدامات سے الگ کرتی ہے وہ اس کا مربوط طریقہ ہے۔ یہ بہت اہم ہے کیونکہ پاکستان کے نوجوانوں میں صرف ملازمت کے مواقع یا تعلیم سے زیادہ ملک کی حکمرانی اور مستقبل سے منسلک ہونے کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ پروگرام نوجوانوں کو نیشنل یوتھ کونسل جیسے پلیٹ فارم میں شامل کرکے، فیصلہ سازی کے عمل میں فعال شرکت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ صرف نوجوانوں کو سننے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ انہیں ملک کے مستقبل کی تشکیل میں سٹیک ہولڈرز کے طور پر نمایاں حیثیت دینے کے بارے میں ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے نوجوانوں پر مرکوز اقدامات کے لیے 150 بلین روپے مختص کیے ہیں۔' وزیر اعظم اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیم ترقی کی بنیاد ہے،، جو ان کی اس سوچ کی عکاسی کرتی ہے کہ پاکستان کا خوشحال مستقبل ایک باشعور، اچھی طرح سے آراستہ نوجوان نسل سے شروع ہوتا ہے۔
یوتھ لیپ ٹاپ سکیم، پی ایم وائی پی کے اہم اجزاءمیں سے ایک ہے جس کے تحت حکومت 600,000 سے زیادہ لیپ ٹاپ پہلے ہی تقسیم کر چکی ہے۔ یہ صرف ایک تکنیکی اپ گریڈیشن نہیں ہے بلکہ یہ اقدام ڈیجیٹل تقسیم کو ختم کرنے کی دانستہ کوشش کی نمائندگی کرتا ہے، طالب علموں کو عالمی وسائل تک رسائی کی پیشکش، انہیں تحقیق کے قابل بنانا، اور جدت کو فروغ دینا بھی شامل ہے۔ دیگر اسکیمیں جیسے 216,151 سکل ڈویلپمنٹ اسکالرشپس، 1,000 پی ایچ ڈی اسکالرشپس امریکہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے، اور بلوچستان اور سابق فاٹا جیسے کم نمائندگی والے علاقوں کے طلباءکے لیے 5,000 وظائف بھی پورے پاکستان میں تعلیمی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے ایک مضبوط عزم کی نشاندہی کرتے ہیں۔
ملک میں نوجوانوں کے لیے روزگار ایک مرکزی مسئلہ ہے۔ بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کے پیش نظر پی ایم وائی پی نے بااختیار نوجوان انٹرنشپ پروگرام جیسے اہم اقدامات متعارف کرائے ہیں، جو نوجوان گریجویٹس کو 60,000 بامعاوضہ انٹرن شپ کی پیشکش کرتے ہیں۔ مزید برآں، یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر لون سکیم ،خواہشمند کاروباری افراد اور نوجوان زرعی ماہرین کو بااختیار بناتی ہے، جو اہم شعبوں میں جدت پر مبنی اختراعات کے خواہاں افراد کو مالی مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ اقدامات جدت کی حوصلہ افزائی اور روزگار کے خلا کو دور کرنے پر دور رس اثرات مرتب کریں گے کیونکہ یہ صرف شہری مراکز تک ہی محدود نہیں ہیں، جہاں زیادہ تر سرکاری پروگرام روایتی طور پر ان کی رسائی رکھتے تھے۔ ان مواقع کو دیہی علاقوں تک پھیلانے، علاقائی عدم مساوات کو کم کرنی، متوازن معاشی نمو پیدا کرنے اور زیادہ جامع معیشت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے۔
اگرچہ تعلیم اور روزگار وزیراعظم کے یوتھ پروگرام کے اہم ستون ہیں تاہم ماحولیاتی ذمہ داری ایک آگے کی سوچ اور انتہائی ضروری جزو کے طور پر نمایاں ہے۔ پاکستان، موسمیاتی تبدیلیوں کے سب سے زیادہ خطرے والے ممالک میں سے ایک ہے جو ماحولیاتی انحطاط کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ گرین یوتھ موومنٹ نوجوانوں کو قابل تجدید توانائی سے لے کر فضلہ کے انتظام تک پائیدار طریقوں میں مشغول ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ماحولیاتی توجہ ماحولیات کے بارے میں شعور رکھنے والے کاروباری افراد اور کارکنوں کی ایک نسل کو متاثر کرے گی، جو نہ صرف موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مطابقت رکھتے ہیں بلکہ ان کو کم کرنے کے لیے فعال طور پر کام کرتے ہیں۔
نوجوانوں کے پروگراموں میں پائیداری کو شامل کرنے کے طویل مدتی فوائد کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں موسمیاتی تبدیلی ایک واضح چیلنج ہے، سبز طرز عمل پر یہ توجہ پاکستان کو ماحولیاتی لچک میں علاقائی رہنما بننے کی پوزیشن میں رکھتی ہے۔ تبدیلی کے ایسے پروگراموں پر کامیا بی سے عمل درآمد میں قیادت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میں وزیر اعظم شہباز شریف کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے پی ایم وائی پی کو اس کے اہداف کی طرف لے جانے کے لیے مجھ پر اعتماد کیا۔ چارج سنبھالنے کے بعد سے، میں نے پروگرام کی رسائی کو بڑھانے کے لیے نجی شعبے، تعلیمی اداروں، اور سرکاری اداروں کے درمیان تعاون بڑھانے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ہم زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو پاکستان کی ترقی میں بامعنی کردار ادا کرنے کے لیے اوزار فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔پی ایم وائی پی اس تبدیلی کی نمائندگی کرتا ہے جس سے حکومت اپنے نوجوانوں کو پالیسی کے غیر فعال استفادہ کنندگان کے طور پر نہیں بلکہ تبدیلی کے فعال محرک کے طور پر دیکھتی ہے۔
ہم پاکستان کو درپیش ڈھانچہ جاتی چیلنجوں کو سمجھتے ہیں۔ اگرچہ پروگرام کے عزائم بہت زیادہ ہیں، لیکن اس کی کامیابی کا انحصار ان اقدامات کو موثر اور جامع طریقے سے انجام دینے کی صلاحیت پر ہوگا۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ یہ مواقع واقعی پسماندہ کمیونٹیزخاص طور پر دیہی علاقوں اور تنازعات سے متاثرہ علاقوں تک پہنچیں، پی ایم وائی پی میں نہ صرف معاشی منظر نامے بلکہ پاکستان کے سماجی و سیاسی تانے بانے کو تبدیل کرنے کی صلاحیت ہے، جو نوجوانوں کو ملک کی ترقی کا معمار بناتی ہے۔پھر بھی، اس پروگرام کی کامیابی خود نوجوانوں کی فعال شرکت پر منحصر ہے۔ حکومت نے آلات فراہم کیے ہیں اور بنیاد رکھی ہے۔ ہم نوجوان پاکستانیوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان مواقع سے، چاہے وہ تعلیم، روزگار، کاروبار، یا ماحولیاتی کارروائی سے متعلق ہوں، بھرپور فائدہ اٹھائیں۔، یہ نوجوانوں کے لیے اس موقع پر اٹھنے کا لمحہ ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے زور دیا ہے کہ ”پاکستان کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔“
( صاحب مضمون وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین ہیں)۔