لاہور شہر ایک بار پھر سموگ کے نرغے میں ہے۔ حکومت بیچاری بے بس ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سموگ سے لاہور والوں کو بچالینے کی خواہش رکھنے کے باوجود کامیاب نہیں ہو پائیں۔ سابق نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی نے پاکستان کے طویل المدتی نگران دور میں مصنوعی بارش برسا کے کسی حدتک سموگ پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ دنیا میں یا انسانی تاریخ میں محض اقتدار کا شوق رکھنے والے حکمران سیاسی ویژن نہ ہونے کی وجہ سے حقیقی ملکی و قومی ایشوز پر عموماً آگہی سے محروم رہتے ہیں یا پھر معاشی ترقی کی اہلیت کم ہونے کی وجہ سے آرٹیفشل ڈویلپمینٹ کو ہی حقیقی ڈویلپمینٹ سمجھ بیٹھتے ہیں اور عوام کو بھی یہی بتاتے رہتے ہیں کہ ہم نے فلاں پراجیکٹ بنایا فلاں بنایا۔ ملک میں اگر آج تک کسی حکمران نے حقیقی ڈویلپمینٹ کی ہوتی تو آج پاکستانی اثاثوں کی نیلامی نہ ہوتی۔ میں نے بالکل عام پاکستانی کے منہ سے سنا کہ سٹیل مل کو چلنے دیا ہوتا تو آج موٹروے گروی رکھنے ، ائیرپورٹس کو آوٹ سورس کرنے اور پی آئی اے کو نیلام کرنے کی باتیں نہ ہو رہی ہوتیں۔ ایک اور تاثر جو خود حکمرانوں میں جڑ پکڑ گیا وہ یہ ہے کہ کوئی بھی حکمران اب دنیا میں کہیں بھی عوامی ووٹوں سے اقتدار میں نہیں آتے۔ چاہے وہ امریکہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہر باشعور پاکستانی سوچتا ہے کہ امریکی اسٹیبلشمینٹ بھی اپنی مرضی کے بغیر کسی کو اقتدار میں نہیں آنے دیتی چاہے وہ جتنی اکثریت سے ووٹ حاصل کر لے۔ جب سے پاکستان میں حکمرانوں کی اگلی نسلوں نے حکومتوں کی باگ ڈور سنبھالنا شروع کی ہے لوگ خود کو خاندان ِ ہا بیگانگاں کے قیدی سمجھتے ہیں۔ لوگوں کی یہ سوچ کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ جس ملک میں کسان کو تاڑ کر ہدف بنایا جائے اور بقول شخصے اسے اربوں کھربوں کا چونا لگا کے اسی سے ہتھیائے ہوئے پیسوں سے چند ارب کا لولی پاپ دینے کو زرعی سہولت قرار دے دیا جائے وہاں کیا خاک کسی کو سکھ کا سانس آئیگا۔
مجھے لگتا ہے عمران خان کا بھی اب بس نام ہی رہ گیا ہے۔ عوام اسے سامنے رکھ کر اپنی بقاءکی ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس میں ان کے پاس نفرت کے اظہار کے لیے گالی گلوچ اور لعنت ملامت کے سوا کچھ نہیں بچا۔ نوجوان نسل کی اکثریت باغیانہ خیالات کی مالک اور بدتہذیب ہوچکی ہے۔ نظام تعلیم کے فراڈ اور ادبی و ثقافتی زبوں حالی نے ملک میں شائستگی اور جمالیاتی تربیت کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ہے۔
ادبی فیسٹیولز کے نام پر پورے ملک میں ہونے والی ہلڑ بازی کی ہولناکی کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جا رہا کہ جس کلچر نے نوجوانوں کی تربیت کرنی تھی اسے فیسٹیولز کے سازشی ٹرینڈ کی نذر کردیا گیا ہے۔ ملک میں پراپرٹی اور شادی گھروں کے چلتے ہوئے کاروباروں اور کئی دیگر صنعتوں کو بند کردیے جانے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ بجلی گیس کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں ، بے روزگاری عروج پر ہے، ادبی اداروں پر ادیبوں کی جگہ مفاد پرست بٹھا دیے گئے ہیں اور تقاضا یہ کیا جا رہا ہے کہ عوام سب اچھا سمجھیں اور سب اچھا کہیں۔ چلیں حکمرانوں نے پاکستان میں تو ڈنڈے کا زور دکھا دیا مگر اب پاکستان سے باہر کے حالات پر ان کی بے بسی خود ان کا منہ چڑا رہی ہے۔ جیسے انسانوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سب نے جانا تو واپس اگلے جہان ہی ہے۔ اسی طرح اب پاکستانی حکمرانوں کے بارے کہا جاتا ہے کہ انہیں نے بالآخر جانا تو سمندر پار ہی ہے۔ لیکن ” پار جا کے بھی چین نہ پایا توکدھر جائیں گے “
جیسے حالات کا تصور حکمرانوں کے لیے بھی اب ڈراﺅنا خواب بنتا جا رہا ہے۔ قوم یا ملک کے لیے نہ سہی اب حکمرانوں کو اپنی بقاء کے لیے ہی کچھ نہ کچھ حقیقی کرنا پڑے گا۔ آرٹیفشل ترقی اور مصنوعی بہتری کے ٹولز اتنے پرانے اور ناکارہ ہوچکے ہیں کہ اب اگر کوئی شخص یا طبقہ جانتے بوجھتے ہوئے ان کے چکمے میں آنا چاہے تو پھر بھی اس کے اندر سے کہیں آواز آتی رہتی ہے کہ یہ سب فریب ہے ۔
حکومت وفاقی ہو یا صوبائی حقیقی ترقی ، خوشحالی اور اصلی آسودگی کے تصور تک سے محروم ہے۔
کوئی ایک کام تو ایسا ہو جسے لوگ کہیں کہ اس سے واقعی حقیقی سہولت ملی ہے۔ آج ہمارے سارے سابقہ حکمران بتائیں کہ وہ پی آئی اے کیوں نہیں چلا سکے یا بچا سکے۔ سٹیل مل کو کیوں تباہ کیا گیا اور کیوں بحال نہیں کیا جاسکا۔ اور تو اور پچھلے سال جو کچھ گندم کے ذریعے کسان کے ساتھ کیا گیا اور جوکچھ اب کیا جا رہا ہے یہ کونسی سیاسی بصیرت اور حکومتی کارنامہ ہے۔ سولر مفت ملے گا اور لائیسنس آن لائن بن پائے گا یا کسان کارڈ کی سہولت کا احسان عظیم کردیا گیا ہے۔ کسان کو مافیا سمجھنے والے لیڈرز کسان کی اہمیت ہی سے نابلد ہیں۔ اگر حکمران یہی کچھ کرتے رہیں گے تو پھر یہی کچھ بھرتے بھی رہیں گے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کا مفت مویشی تقسیم پروگرام کا حشر بھی وہی ہوگا جو عمران خان کے مفت مرغیوں کی تقسیم کے پروگرام کا ہوا تھا کیونکہ تقسیم کنندگان کے پاس نہ تو کوئی ویژن ہے اور نہ ہی مہارت و آگاہی کہ وہ اسی پروگرام کو لانگ لاسٹنگ بنا سکیں۔ جب کسی کام کے پیچھے بڑی دانائی ہی نہ ہو تو اس کے نتائج بھی ویسے ہی نکلتے ہیں۔ میں نے ان پروگرامز کو اپنے محدود لیول پر کامیاب کرکے دیکھا ہے۔ صوبے اور ملک کی سطح پر اگر یہی کام سسٹم کے تحت ہو تو بڑے ، مثبت اور تعمیری نتائج نکل سکتے ہیں ، پر کتھوں۔۔۔۔