تابندہ سراج خوبصورت لکھنے والی ابھرتی ہوئی مصنفہ ہیں ان کی کتاب ”اردو میں راشد شناسی“ خاص طور پر میں نے ان سے وصول کی۔ اورکتاب پڑھتے ہوئے مجھ پہ آشکار ہوا کہ یہ ایک مستند کتاب ہے، موضوع بہت دقیع اور تفصیل طلب ہے، اس موضوع کو ایم فل کے مقالے میں سمیٹنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف تھا۔ پھر بھی میں تابندہ سراج نے موضوع کو بطور طالب علم برتتے ہوئے اس کے نہایت اہم اور غور طلب پہلووں کا جائزہ لیا ہے۔
یہ کتاب کل آٹھ ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں ن م راشد کی سوانح حیات کا جائزہ ہے۔ اس سلسلے میں جو معلومات حاصل کی گئیں ان میں راشد کے معتبر ناقدین کے علاوہ خود راشد کے ایک مصاحبے سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔ دوسرے باب میں راشد شناسی کی روایت پر نظر ڈالتے ہوئے راشد صدی 2010ءکے حوالے سے کیے گئے کام کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ سو سالہ پیدائش راشد 2010ءمیں راشد پر جتنا تحقیقی و تنقیدی کام کیا گیا ہے وہ پچھلے ستر سال میں بھی نہیں کیا گیا۔ تیسرا باب راشد کی حیات سے متعلق ہے۔ اس میں راشد کے بچپن، جوانی، آخری عمر، مشاغل، ابتدائی و ارتقائی شعری سرگرمیوں نیز نثری کاوشوں، دوست احباب، اساتذہ، معاصرین، خانگی زندگی، دور ملازمت اور میت سوزی کے واقعے سے متعلق تفصیلی جائزہ ناقدین کی آراءکے حوالے سے لیا گیا ہے۔ اس باب میں خود راشد کے بھی اپنے اور دوسروں کے حوالے سے کیے گئے تبصرے شامل ہیں جو ان کے انٹرویوز اور خطوط سے ملتے ہیں۔
چوتھا باب سب سے طویل اور نہایت اہمیت کا حامل ہے جس میں شعر راشد عنوان سے راشد کی شعری کاوشوں پر راشد شناسوں کی تنقیدی آراءکے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ اس باب میں راشد کے فن شعر گوئی کے آغاز و اختتام تک، ہر اہم نکتے کی وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پانچواں باب راشد کی نثر سے متعلق تنقیدی حوالوں پر مشتمل ہے جس میں راشد کے تنقیدی، تاریخی، علمی و ادبی مضامین، تراجم، دیپاچوں، اداریوں، طنز و مزاح سے متعلق تحریروں پر کیے جانے والے تحقیقی و تنقیدی کام کا ذکر کیا گیا ہے۔آخرمیں دو ابواب میں دور حاضر کے راشد شناسوں کے کام کا کچھ حصہ سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔راشد نے اپنا بچپن زیادہ تر دادا، دادی کے ساتھ گزارا۔ بچپن میں انھوں نے دادی سے پیغمبروں، اولیاء اللہ اور الف لیلیٰ کی کہانیاں سنی۔ دادا سے صرف و نحو کی کتابیں اور قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا۔
راشدکو بچپن سے ہی شعر کہنے کا شوق تھا۔ انھوں نے اپنی پہلی نظم آٹھ برس کی عمر میں لکھی۔ جس کا عنوان تھا انسپکٹر اور مکھیاں، سب سے پہلے انھوں نے گلاب تخلص اختیار کیا۔ ابتداءمیں والد اور دادا سے داد کے ساتھ شاعری نہ کرنے کی نصیحت بھی ملی لیکن انھوں نے شعر گوئی نہ چھوڑی۔ اس نظم کے بعد ان کی کچھ حمدیں، نعتیں اور غزلیں کئی رسالوں مثلاً تفریح، بجنور اور کائنات میں چھپتی رہیں۔ قلمی نام متعین نہ ہونے کے باعث پورا نام نذر محمد خضر عمر جنجوعہ استعمال ہوا۔
اسی دور میں لائل پور کے ایک رسالے زمیندارہ گزٹ میں دیہات سدھار موضوع پر نظمیں لکھیں۔ کالج میں بزم سخن کے سیکرٹری اور رسالہ راوی کے اردو حصے کے ایڈیٹر رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے دور میں شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوچکا تھا ”تو مرے دل کو عطا کر سکوں خدا کے لیے“ نظم پر انٹر کالج مشاعرے میں پہلا انعام حاصل کیا۔ یہیں انھوں نے کئی سانیٹ لکھے جو ماورا میں شامل ہوئے۔ اس دوران لکھے ہوئے کچھ تنقیدی مضامین چند رسالوں میں شامل ہوئے۔ گورنمنٹ کالج میں فیض احمد فیض اور آغا عبدالحمید جیسے دوست اور احمد شاہ پطرس بخاری، لینگ ہارن اور ڈگن جیسے اساتذہ ملے جن کی محبت نے ان کی علمی اور ادبی کاوشوں کو پروان چڑھایا۔
مئی 1939ءمیں کلرکی چھوڑ کر آل انڈیا ریڈیو میں بطور پروگرام اسسٹنٹ تعینات ہوئے۔ اس سلسلے میں وہ ایک ماہ لاہور اور چار سال دلی اسٹیشن پر کام کرتے رہے اور انھوں نے پروگرام ڈائریکٹر کے عہدے تک ترقی کی۔ دسمبر 1943ءمیں راشد فوج میں عارضی کمیشن کے تحت کپتان بھرتی ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔ 1943ءسے 1947ء انٹر سروسز پبلک ریلیشنز ڈائریکٹریٹ انڈیا کے تحت پبلک ریلیشنز آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ ملازمت کے سلسلے میں بہت سے ملکوں میں قیام کیا۔ جن میں عراق، ایران، مصر اور سیلون شامل ہے۔ مئی 1947ءمیں فوج سے الگ ہو کر پھر آل انڈیا ریڈیو لکھنو سے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔ اس حیثیت سے ایک سال پشاور اور چھے ماہ لاہور سٹیشن پر رہے۔ 1949ءمیں ریڈیو پاکستان ہیڈکوارٹر کراچی میں ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز رہے۔ 1950ءسے 1952ءتک پشاور سٹیشن پر ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کیا۔
راشد کی شاعری کے چار مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ماورا 1941ءمیں شائع ہوا، ایران میں اجنبی 1955ءمیں شائع ہوا۔ انسان 1969ءمیں شائع ہوا اور گماں کا ممکن ان کی وفات کے بعد 1977ءمیں شائع ہوا۔ اردو کی ادبی تاریخ میں میر شناسی، غالب شناسی، اقبال شناسی اور فیض شناسی کی طرح راشد شناسی بھی ایک اہم ادبی روایت کا درجہ اختیار کرچکی ہے جو کم و بیش ستر سال پر پھیلی ہوئی ہے۔