ٹرمپ کی جیت کی بات سچ ثابت ہوگئی

ہفتہ قبل ایک فورم پر دوران گفتگو بہت مدبر۔فاضل شخص سے پوچھا کہ کیا اندازہ ہے کہ کون جیتے گا؟؟ بنا ایک لمحہ تاخیر کے جواب تھا ”کملا ہیرس“ میں نے کہا میرا یقین ہے کہ ”ٹرمپ‘ جیتے گا اور میں نے آج ہی کالم لکھ کر بجھوا دیا ہے۔ وہ شخص اپنی بات پر مصر رہے اور میں اپنے تجزیہ پر یہاں تک کہ نہ پیش گوئی کی اہلیت ہے نہ دعویٰ۔ بس اپنے دماغ پر بھروسہ کر کے لکھتی آرہی ہوں۔ سیاست سے اقتصادیات تک اندازے۔ باتیں تقریبا ً عمل پذیر ہوتے دیکھے ہیں۔ شائع شدہ کالمز خود سب سے بڑا ثبوت ہیں۔ قارئین ٹویٹر۔ فیس بک پر ملا خطہ کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے بارے میں اب تک سارے تجزیے۔ باتیں سچ ثابت ہوئی ہیں۔ 
”امریکی انتخابی نقشہ“(پیرا گراف مطبوعہ کالم یکم نومبر2024)
امریکہ کی ”7“ اہم ترین ریاستیں جو ”سوئنگ ریاستیں“ کہلاتی ہیں وہاں اصل جنگ لڑی جارہی ہے انتہائی جوش و خروش ہے۔ الیکشن مہم بڑی تیزی سے بدلتی جا رہی ہے اب تک کی صورتحال میں پلڑا ”ٹرمپ“ کی طرف جھک رہا ہے۔ گو الیکشن مہم کے آغاز میں لوگ ”کملا ہیرس“ کے حق میں تھے مگر اب تصویر زیادہ واضح ہو چکی ہے۔ صنف نازک ہونے کے باوجود متوقع ہمدردی۔ توجہ حاصل کرنے میں زیادہ کامیاب نہیں ہوپائی۔ ویسے بھی ”ہیلری کلنٹن“ کی صورت میں عورت کارڈ ایکسپائر ہو چکا ہے پہلے سے۔ ٹرمپ اپنی مد مقابل کی نسبت زیادہ پر اعتماد ہیں۔ کھلا ڈلا انداز گفتگو۔ اپنے ارادوں میں سختی کا عنصر لیے ہوئے۔ پہلے سے بڑھ کر وہ اپنے حامیوں میں مقبول ہیں۔ ”ٹرمپ“ کے سپورٹرز بے حد پر جوش۔ متوالے جیت کے لیے جان لڑا رہے ہیں۔ ووٹرز کی حمایت اپنی جگہ اگر ”پاور بروکرز“ کو کھیل اپنے حق میں نظر نہ آیا تو نتائج آغاز والے بھی ہو سکتے ہیں پر یقینی ہے کہ ”ٹرمپ“ ہی اگلے امریکی صدر ہونگے۔ ٹرمپ کے صدر بننے کی صورت میں امید ہے ٹرمپ کے پہلے والے دور کی طرح کہ بیرونی دنیا میں امریکی مداخلت کم ہوگی۔”جو بائیڈن“ کے صدر بننے پر میراکالم (طبع شدہ نوائے وقت) قارئین پڑھ سکتے ہیں کہ جو امکانات۔ نتائج تحریر کیے تھے وہ پورے ہوگئے۔ اب حالات مثبت رخ کی طرف جائیں گے۔ دنیا مزید جنگوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ عاجز آچکی ہے ہر طرف معاشی حالات بگڑ چکے ہیں۔ حکومتوں پر اپنے 
عوام کا بہت پریشر ہے یہ ذکر ہے آئین قانون کے حامی ممالک کا یعنی یورپی ممالک کا۔ہمارا نہیں یہاں تو عوام پر حکومتوں کا پریشر رہا ہے ایسی تاریخ نہیں بدلنے والی جب تک عوام اپنی حالت کو خود سے سنوارنے کی ابتدا نہیں کرے گی۔
”ووٹرز کی ترجیح کیوں بنے ؟؟“
تمام تر ذاتی الزامات کے باوجود ”امریکی ووٹرز“ نے اپنی ذات کے حوالے سے ”ٹرمپ “ کے وعدوں کو سنجیدہ لیا۔ نوجوانوں نے عملی طور پر باہر نکل کر مہم کوجاندار بنایا بلکہ جیت کو عملی شکل میں بدلنے میں نوجوان طبقہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ جو لیڈر اپنے عوام کے لیے سوچتا ہے وہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ ٹیکس کم کرنے۔ مہنگائی گھٹانے اور امریکہ کو عظیم بنانے کے وعدوں نے بطور خاص نوجوان نسل کو بہت متاثر کیا۔ دوسرا الیکشن ہارنے کے باوجود ٹرمپ نے عوام کے ساتھ مسمسل رابطہ رکھا۔ اِس عمل سے عوام میں اپنی حمایت قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔ امریکی قوم کے اہم (ذاتیات میں الجھنے سے گریز کیا) مسائل پر توجہ مرکوز رکھی۔ چونکہ بزنس میں ہیں اسلئیے دکھتے معاشی مسائل کو حل کرنے کے اعلانات کیے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم نے بڑے مسائل کو سامنے رکھنے کی بجائے اپنے ذاتی مصائب کے خاتمہ پر یقین کرتے ہوئے ٹرمپ کو کامیابی دلوادی اور وہ بھی واضح مارجن کے ساتھ۔ چونکہ بزنس مین ہیں اسلئیے آتش و آہن میں اپنے وسائل کو جلانے کی بجائے کاروباری ماحول بہتر بنانے پر توجہ دے گا۔ اقتصادی مواقع وسیع کرنے پر لازمی فوکس کرنا پڑے گا کیونکہ معاش کی بہتری کی امید نے ”ووٹرز“ کی اکثریت کو متوجہ کیا۔ بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات (پہلے والے دور کو سامنے رکھیں) زیادہ تیزی سے مضبوط ہونگے۔
جاری جنگوں کا خاتمہ اور کوئی نئی جنگ شروع نہ کرنے کا عزم۔ سب سے بڑا وعدہ ہے حال میں جاری تاریخ کی بد ترین مسلم کشی کی جنگ میں امریکہ کا کردار متذکرہ بالا وعدے کی خلاف ورزی یا پاسداری کا تعین کریگا۔ ٹرمپ کو اب اپنے بیانات کے حوالے سے پرکھا۔ جانچا جائے گا۔ کیونکہ اعلان کیا تھا کہ منتخب ہونے پر چند گھنٹوں میں ”غزہ“ کی جنگ ختم کر دوں گا۔ اِس یقین دہانی پر ایشیائی۔ عرب ووٹرز کی اکثریت نے ٹرمپ کے حق میں ووٹ ڈالا۔ کچھ بہت زیادہ امیدیں باندھنے کی بجائے اتنا یقین ہے کہ اب حالات ضرور امن کی طرف جائیں گے چاہے کچھ عرصہ کے بعد مگر دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ امریکہ سے لیکر یورپ تک سبھی استحکام کے حامی ہیں۔ سیاسی استحکام ہوگا تو دنیا معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکے گی۔ امن اب ہر شخص کی دلی خواہش ہے کوئی بھی فرد۔ قوم جنگوں میں ”اپنے بیٹے“ اور ”اپنا پیٹ “ جھونکنا پسند نہیں کرے گی۔ لوگ بارود کی بو سے بیزار ہو چکے ہیں۔ بے مقصد جنگ و جدل نے قوموں کے حلیے بگاڑ دئیے ہیں۔ سماج سے سیاست تک ہر شعبہ تنزلی۔ بے چینی کا شکار ہے۔ ذہنی سکون کے متلاشی لوگوں نے جاری تجربہ کو ٹھکرا کر دنیا کو امن دلانے کی امید کو اپنی حمایت سے لاد دیا۔ یہ بھی نہیں ہوگا کہ ایک دم سب ٹھیک ہو جائے گا پر امید واثق ہے کہ امن قائم ہونے جارہا ہے۔ 
”ٹرمپ اور پاکستان“
بجا ہم اور وہ اتحادی ہیں پر تصویر اب کافی حد تک صاف نظر آرہی ہے۔ ”اہم“ پہلے تھے اب صرف اتحادی ہیں۔ ہمارا جغرافیہ بھی اب خاص قابل ترجیح نہیں ہے۔ ہمیں کچھ زیادہ خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے۔ اِس موجودہ وقت میں امریکی ترجیحات میں پاکستان پہلی فہرست میں نہیں ہے۔ ”یوکرین جنگ“ سے بڑھ کر پوری دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی لپیٹ میں لیتی ہوئی مشرق وسطیٰ غزہ کی صورتحال بہت دشوار مرحلہ ہوگا نئی انتظامیہ کے سامنے اقتصادی ترقی۔ مہنگائی کا خاتمہ یہ اولین فرصت کے کام ہونگے۔ البتہ سیاسی امور کے ضمن میں کسی بھی وقت بڑی اہم پیش رفت کی توقع لازمی طور پر سوچ رکھیں۔ ”76سالوں“ کے تجربات سامنے ہیں اِن کو اب ردی نہ ہونے دیں۔ دوسروں سے توقعات وابستہ کرنے سے بہتر ہے کہ خود کھڑے ہو جائیں۔ اپنے حالات اپنی ذات سے بدلنے کا آغاز کریں۔ ہماری ترقی ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ کل تک مقدمات۔ پیشیاں بھگتتا شخص آج دنیا کا طاقتور ترین انسان بن چکا ہے یہ ہے تاریخ کا انمٹ سبق۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ اپنے ووٹرز کے ساتھ دلی مسلسل وابستگی شرط اول ہے کامیابی کے لیے۔ ہم نجانے کیوں ہمیشہ دوسروں پر سب کچھ پھینک کر ”ویلے“ ہو جاتے ہیں۔ قوم ”ویلی“ نہیں ہماری سیاست ”ویلی“ رہی ہے پر اب تو مصروف ہو جائیں۔

ای پیپر دی نیشن