صدارتی انتخابات کی دوڑ میں ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ دوسری بار کامیاب ہو کر امریکہ کے 47ویں صدر منتخب ہو گئے۔ انہوں نے 292 الیکٹورل ووٹ حاصل کئے جبکہ انکی مدمقابل ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کمیلا ہیرس 226 الیکٹورل ووٹ حاصل کر پائیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو کامیابی کیلئے مجموعی 538 الیکٹورل ووٹوں میں سے 270 ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ ٹرمپ نے مطلوبہ ووٹوں 22 الیکٹورل ووٹ زیادہ حاصل کئے۔ ان انتخابات میں امریکہ کے 16 کروڑ ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔ کامیابی کے بعد ٹرمپ کے حامیوں نے وائٹ ہاﺅس کے باہر جمع ہو کر جیت کا جشن منایا اور خوب ہلہ گلہ اور نعرے بازی کی۔ اب سینیٹ میں بھی ری پبلکنز کو ڈیموکریٹس پر برتری حاصل ہو گئی ہے جہاں امریکی سینیٹ کی 100 میں سے 52 نشستیں ری پبلکنز کے پلڑے میں آگئی ہیں۔ اس طرح سینیٹ میں بھی ٹرمپ کی پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ ڈیموکریٹس کے پاس امریکی سینیٹ میں اس وقت 44 نشستیں ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کامیابی کے بعد عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسی سیاسی جیت انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی‘ وہ عوام کے حقوق کیلئے روزانہ لڑیں گے‘ امریکہ کے زخموں پر مرہم رکھیں گے اور ملک کو مضبوط بنانے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ انکے بقول امریکہ میں سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ وہ چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تمام اقدامات اٹھائیں گے۔ نئی کوئی جنگ شروع نہیں کرینگے بلکہ جنگوں کو ختم کریں گے۔ انہوں نے امریکی سرحدیں سیل کرنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ غیرقانونی تارکین وطن کی آمد کو روکیں گے۔ امریکہ کے تمام معاملات اب ٹھیک ہونے والے ہیں۔ ہم ایک تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی سیاسی جیت ہے۔ انہوں نے بہت مشکل حالات میں انتخاب جیتا ہے۔ انہوں نے نائب صدر وینس کو بھی انکی کامیابی پر مبارکباد دی۔ صدر کے منصب پر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب آئندہ سال 2025ءکے آغاز میں 20 جنوری کو واشنگٹن میں منعقد ہوگی۔ وہ اپنی چار سالہ مدت کیلئے 2028ءتک صدر کے منصب پر فائز رہیں گے۔
اپنی کامیابی کے بعد ٹرمپ کو دنیا بھر کی قیادتوں کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہوئے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف نے اپنے پیغام میں ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہم علاقائی اور عالمی امن و استحکام کیلئے مل کر کام کریں گے۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے صدر بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کے ذریعے ”ایکس“ پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ امریکہ کے عوام نے ٹرمپ اور انکی ٹیم کو بڑی کامیابی دلائی۔ انکی فتح درحقیقت جنگ مخالف سوچ کی فتح ہے۔ امید ہے امریکہ کی نئی انتظامیہ امن کو ترجیح دیگی اور عالمی تنازعات کو ختم کرنے میں معاون بنے گی۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کے جاری کردہ بیان میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ صدر کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی گئی اور کہا گیا کہ چین باہمی احترام کی بنیاد پر امریکہ کے ساتھ کام جاری رکھے گا اور امریکہ کیلئے چین کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئیگی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے پر ٹرمپ کو مبارکباد دی اور کہا کہ ٹرمپ کی واپسی اتحاد کے عزم کا اعادہ ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے شاہ سلمان اور شہزادہ محمد بن سلمان نے بھی ٹرمپ کو انکی کامیابی پر مبارکباد کا پیغام بھجوایا ہے اور برطانوی اور بھارتی وزراءاعظم کی جانب سے بھی ٹرمپ کو مبارکباد دی گئی ہے۔ اسی طرح فرانس‘ یوکرائن‘ مصر‘ قطر اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی ٹرمپ کیلئے مبارکباد کے پیغامات بھجوائے گئے ہیں۔ فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم حماس کی جانب سے توقعات وابستہ کی گئی ہیں کہ ٹرمپ اسرائیل کی سرپرستی سے رجوع کریں گے اور جنگ کے خاتمہ اور امن کی بحالی کیلئے کردار ادا کریں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ ری پبلکنز کی جانب سے ٹرمپ کو انتہائی مشکل حالات میں صدر کے انتخابات کیلئے تیسری بار میدان میں اترنا پڑا تھا جبکہ انکے پہلے انتخاب کے وقت بھی انکی شخصیت کئی حوالوں سے متنازعہ تھی۔ اسکے باوجود انہوں نے ڈیموکریٹس کی خاتون امیدوار ہلیری کلنٹن کو شکست دی جو مقبولیت کی بنیاد پر ٹرمپ سے کہیں آگے نظر آتی تھیں۔ ٹرمپ دوسری ٹرم کے انتخاب کیلئے بھی ری پبلکنز کی جانب سے میدان میں اترے جن کے مدمقابل ڈیموکریٹس کے جوبائیڈن آئے اور انتخابی مہم میں ڈیموکریٹس نے اخلاقی بنیادوں پر بھی ٹرمپ کو متنازعہ بنایا چنانچہ وہ اس انتخاب میں کامیاب نہ ہو سکے اور دھاندلیوں کا الزام لگاتے ہوئے جارحانہ انداز میں احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جس کے دوران وائٹ ہاﺅس پر حملے کے الزام میں بھی انکے خلاف مقدمہ چلا اور وہ اس میں سزا یافتہ بھی ہوئے۔ اسکے باوجود وہ امریکی صدر کے انتخاب کیلئے اپنی پارٹی کی آشیرباد کے ساتھ تیسری بار انتخابی میدان میں اتر آئے جن کے مقابلے میں ڈیموکریٹس کی جانب سے صدر بائیڈن کو دوبارہ امیدوار نامزد کیا گیا مگر ٹرمپ نے انتخابی مہم کے پہلے ہی مرحلے میں بائیڈن کے غبارے سے ہوا نکال دی چنانچہ ڈیموکریٹس کو صدارتی امیدوار تبدیل کرنے پر مجبور ہونا پڑا اور امریکی نائب صدر کمیلا ہیرس کو ٹرمپ کے مقابلے میں میدان میں اتارا گیا۔ پوری انتخابی مہم کے دوران مختلف امریکی حلقوں اور تھنک ٹینکس کی جانب سے کمیلا کو مضبوط امیدوار قرار دیا جاتا رہا اور بعض حلقے دونوں میں سخت مقابلے کی توقع کرتے رہے تاہم پانچ نومبر کو طے ہونے والے انتخابی مرحلے میں کامیابی کا جھنڈا ٹرمپ کے ہاتھ آیا۔ اس سے کم از کم یہ بات ثابت ہوگئی کہ ترقی یافتہ جدید امریکی معاشرے میں بھی کوئی خاتون امریکی صدر بننے کی اہل نہیں قرار پا رہی۔ ٹرمپ نے اپنی مدمقابل دونوں خواتین امیدواروں کو شکست دی مگر ایک مرد امیدوار کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ چنانچہ امریکہ جیسے معاشرے میں بھی یہ تاثر قائم ہو رہا ہے کہ کوئی بھی خاتون امریکی انتظامی معاملات سنبھالنے کے قابل نہیں ہے۔
ٹرمپ کو اپنے عہد اقتدار میں جن چیلنجوں کا سامنا ہوگا‘ ان میں بنیادی چیلنجز اسرائیل فلسطین اور روس یوکرائن کی جاری جنگوں سے متعلق ہیں۔ اسرائیل نے گزشتہ سال 7 اکتوبر کو امریکی سرپرستی میں حماس کیخلاف غزہ میں جنگ کا محاذ کھولا جو ایک سال سے زائد عرصہ سے ابھی تک جاری ہے اور اسکے دوران ظلم و بربریت کا کوئی ہتھکنڈہ نہیں ہوگا جو فلسطینیوں پر نہ توڑا گیا ہو۔ اسرائیل نے غزہ کے علاوہ لبنان‘ مصر‘ عراق اور ایران تک اس جنگ کا دائرہ پھیلا دیا ہے جس کے باعث تیسری عالمی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں اور عالمی امن تاراج ہوتا نظر آرہا ہے۔ اڑھائی سال قبل روس اور یوکرائن کے مابین شروع ہونے والی جنگ میں امریکہ نے یوکرائن کی سرپرستی اور اسے حربی کمک فراہم کی۔ یہ جنگ بھی عالمی امن کیلئے تباہی کے خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے۔ یہ دونوں جنگیں جوبائیڈن کے دور اقتدار میں شروع ہوئیں جن کی بنیاد پر انہیں امن کے دشمن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور یہ تصور بھی حالیہ انتخابات میں ڈیموکریٹس کی ناکامی کا باعث بنا ہے۔
اسی طرح ہمارے خطے میں پاکستان اور بھارت کے مابین جاری کشمیر کے دیرینہ تنازعہ میں بھی امریکہ عملاً بھارت کی پشت پر کھڑا ہے چنانچہ بھارت پاکستان کی سلامتی کیخلاف اور مقبوضہ کشمیر میں جارحیت کے ارتکاب کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ بھارت کے کشمیر کو ضم کرنے سے متعلق پانچ اگست 2019ءکے اقدام کیخلاف سلامتی کونسل میں قراردادیں بھی امریکہ ہی ویٹو کرتا رہا ہے جبکہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم چین کی سلامتی کو بھی چیلنج کر رہے ہیں جس سے علاقائی اور عالمی امن کو سخت خطرات لاحق ہیں۔ یقیناً یہی چیلنجز صدر ٹرمپ کیلئے آزمائش ہونگے۔ اگر وہ علاقائی اور عالمی تنازعات طے کرانے اور امن و امان یقینی بنانے میں کامیاب ہو گئے تو عالمی تاریخ میں ان کا نام سنہری حروف میں لکھا جائیگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ کے دور میں خارجہ تعلقات کی امریکی پالیسی میں کسی قسم کا رد و بدل ہوتا ہے یا نہیں کیونکہ امریکی پالیسیاں بہر صورت پارٹی مفادات سے بالاتر اور خالصتاً امریکی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔