پروفیسر محمد صدیق خان قادری
شیخ الاسلام قطب الاقطاب حضرت شاہ رکن الدین و العالم نوری حضوری سہروردیؒ کا شمار بھی ان نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنی تمام زندگی دین اسلام کی نشر و اشاعت اور مخلوق خدا کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ برصغیر میں حضرت شاہ رکن الدین والعالم سہروردری ؒ ایسے اکابرامت نے ایسے روحانی اور علمی کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جو رہتی دنیا تک نا صرف اسلام کی حقانیت کو عام کرتے رہیں گے بلکہ ہر دور میں فلاح و کامرانی کے رہنما اصول بھی فراہم کرتے رہیں گے۔
حضرت شاہ رکن الدین و العالم جنوبی ایشیاء میں سلسلۂ سہروردیہ کے بانی، شیخ الاسلام حضرت غوث بہاء الدین زکریا سہروردی ملتانی کے پوتے، اور حضرت شیخ صدر الدین عارف کے صاحبزادے تھے۔آپ کی پیدائش 9رمضان المبارک 649ھ کو ہوئی۔ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی پاک دامن فرغانہ کے بادشاہ سلطان جمال الدین کی صاحبزادی اور عفت و عصمت اور عبادت و ریاضت کے اعتبار سے اسم بامسمی تھیں یہ آپ ہی کی تربیت کا اثر تھا کہ جب آپ نے بولنا سیکھا تو آپ کی زبان سے جو پہلا حرف ادا ہوا وہ تھا ’’اللہ‘‘۔ حضرت شاہ رکن الدین و العالم کی تعلیم و تربیت اپنے جدامجدحضرت غوث بہاء الدین زکریا کے زیر سایہ ہوئی اور یہ اسی تربیت کا فیض تھا کہ آپ کی شخصیت میں اوائل عمر ہی سے روحانی آثارظاہر ہونے لگے۔ آپ نے قرآن مجید اور دوسرے مروجہ علوم دینیہ اپنے جد امجدکی قائم کردہ درس گاہ جامعہ بہائیہ میں حاصل کیے۔ سلسلہ سہروردیہ کے مشائخ نے دیگرسلاسل طریقت کے مشائخ کے برعکس، سلاطین وقت سے اپنے روابط اس لیے برقرار رکھے کہ ان کے بے اعتدالیوں اور ناانصافیوں کی نشاندہی کرکے امور سلطنت میں ان کی رہنمائی کی جائے تاکہ وہ شریعت مطہرہ پر کاربند ہوکر اپنے آپ کو خدمت خلق کے لیے وقف کردیں۔اس کے باوجود مشائخ سہروردیہ نے ان تعلقات کو دنیاوی فوائد کے حصول کی بجائے تبلیغی اور اصلاحی مقاصد اور خدمت خلق کا ذریعہ بنایا۔ سلاطین وقت سے تعلقات کے باوجود آپ ان کی شان و شوکت سے ہرگز متاثر نہ ہوئے بلکہ ان کے سامنے بھی کلمہ حق بلند فرماتے رہے آپ نے ایک مظلوم شخص کی فریاد پر سلطان علائو الدین خلجی کو پیغام بھیجا کہ ’’مظلوم کے ساتھ انصاف کرو، ورنہ ہم غروب آفتاب سے پیشتر تمہاری جگہ کسی عادل حکمران کو دہلی کے تخت پر بٹھادیں گے‘‘۔
آپ کی حق گوئی اور صداقت کا یہ واقعہ بہت مشہور ہے کہ سلطان علائو الدین خلجی، سلطان الاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سے بغض و عناد رکھتا تھا۔ چنانچہ اس نے حضرت سلطان الاولیاء کااثر و رسوخ کم کرنے کے لیے حضرت قطب الاقطاب کو دہلی بلایا۔ آپ دہلی پہنچے تو سلطان الاولیاء نے شہر سے باہر آپ کا استقبال فرمایا۔بادشاہ نے آپ سے پوچھا کہ ’’دہلی میں سب سے پہلے آپ کا استقبال کس نے کیا؟‘‘ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء سے بادشاہ کی مخالفت کاکے باوجود آپ نے فرمایا ’’دہلی میں سب سے پہلے میرا استقبال اس نے کیا جو اس شہر میں سب سے بہتر ہے۔
اور وہ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی ہیں‘‘۔ جب حضرت خواجہ نظام الدین اولیا ء کا وصال ہوا تو حضرت شاہ رکن الدین عالم ان دنوں دہلی میں تھے اور آپ نے حضرت کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپ ہمیشہ اس سعادت پر فخر کرتے تھے حضرت خواجہ نظام کے مرید خاص حضرت امیر خسرو کی نماز جنازہ بھی حضرت شاہ رکن عالم نے پڑھائی۔
حضرت شاہ رکن الدین و العالم کے مشہور خلفاء میں حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت بخاری، حضرت مخدوم حمید الدین حاکم، حضرت صدر الدین چراغ ہند، شیخ وجیہہ الدین عثمان سنامی، مولانا ظہیر الدین محمد، حضرت علی بن احمد غوری اور شیخ قوام الدین خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ حضرت شاہ رکن الدین و العالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے جد امجد کی قائم کردہ درس گاہ اور تبلیغی سلسلے کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ اسے مزید وسعت دی۔ دینی تعلیم کے علاوہ خطاطی، ظروف سازی، تعمیرات اور تاریخ نویسی کے شعبے بھی قائم فرمائے۔عربی اور فارسی کے علاوہ علاقائی زبانوں نے اسی دور میں خوب ترقی کی۔حضرت قطب الاقطاب رحمۃ اللہ علیہ نے علم وعمل اور سیرت و کردار کے پیکر مجسم بن کر لوگوں کو دائرہ اسلام میں داخل کرکے برصغیر میں اسلام کی حقانیت کا بول بالا کیا۔
ارشادات فرمودات
1۔آدمی صورت اور صفت سے عبارت ہے اس میں قابل اعتنا آدمی کی صفت ہے۔ اللہ عزو جل صورتوں کو نہیں دیکھتا۔ اگر کوئی شخص گناہوں میں مبتلا ہے تو وہ انسان نہیں حیوان ہے۔بری عادات اور گناہوں کو دور کرنے کے لیے تزکیہ نفس کی ضرورت ہے۔ اور تزکیۂ نفس اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتا، جب تک انسان بارگاہ الٰہی میں التجا اور استعانت نہ کرے۔
2۔التجا اور استعانت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے فضل و رحمت کا نزول ہوتا ہے۔ اس کے ظہور کی علامت یہ ہے کہ بندے کی نگاہ میں اس کے اپنے عیوب ظاہر ہوجاتے ہیں۔ اور عظمت الٰہی کے انوار سے ساری کائنات اس کی نظر میں ہیچ ہوجاتی ہے اور جب اس کے دل پر یہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے تو پھر اس کے اوصاف فرشتوں کے اوصاف میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اور اس میں ظلم کی بجائے عفو، کبر کی بجائے تواضع و انکسار اور حرص کی بجائے توکل کی خوبیاں پیدا ہوجاتی ہیں مگر یہ خوبیاں عقبیٰ کے طلب گاروں کے لیے ہیں۔ طالبان حق کے اوصاف اس سے بھی بلند ترہیں۔
3۔حضرت شاہ رکن الدین عالم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی وفات سے تین ماہ پیشتر 7صفر 735ھ کو حضرت غوث بہاء الدین زکریا کے سالانہ عرس میں مریدین سے اپنے خطاب میں فرمایا:’’دوستو! یہ دنیا ایک سرائے ہے،جو لوگ اس میں مسافروں کی طرح رہتے ہیں اور اس کی کسی چیز سے دل نہیں لگاتے۔ جب پیغام اجل آتا ہے تو شاداں و فرحاں اپنے اصلی مقام کی طرف لوٹتے ہیں۔ اور انہیں اس دنیا کے چھوڑنے کا ذرہ بھرملال نہیںہوتا۔ اس کے برعکس جو اس دارفانی کو اپنا اصلی وطن بنالیتے ہیں۔ انہیں اس دنیا کو چھوڑتے ہوئے ضرور تکلیف ہوتی ہے۔
میں تم سب کو اللہ کی امان میں دیتا ہوں، اب تم بھی مجھے اللہ کے سپرد کرو‘‘ اس کے بعد آپ اپنے حجرے میں تشریف لے گئے اور لوگوں سے ملنا جلنا ترک کردیا۔ 7جمادی الاول 735ھ کو اپنے مرید خاص مولانا ظہیر الدین محمد کو تجہیز و تکفین کے سلسلے میں ہدایات دیں اور اسی روز نماز مغرب کے بعد نوافل اوابین پڑھتے ہوئے سجدے کی حالت میں خالق حقیقی سے جاملے۔ آپ کو پہلے حضرت غوث بہاء الدین زکریا کے مقبرے میں دفن کیا گیا اور بعد میں موجودہ روضے میں مستقل کیا گیا۔ جو سلطان محمد تغلق نے آپ کے لیے وقف کیا تھا۔
حضرت شاہ رکن الدین والعالم 710واںسالانہ عرس مبارک 5تا 7جمادی الاول ملتان میں حسب سابق درگاہ کے سجادہ نشین اور سابق وزیر خارجہ ،مخدوم شاہ محمود حسین قریشی کی زیرصدارت منعقد ہورہا ہے۔ عرس کی تقریبات میں ملک بھر سے ہزاروں زائرین شریک ہوں گے۔ حضرت قطب الاقطاب نے اتحاد و یک جہتی۔ تحمل و برداشت۔ اعتدال و میانہ روی اور رواداری کا درس دیا ہے۔ ان تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر ہی ہم ملک میں قیام امن او رسا لمیت و استحکام کو یقینی بناسکتے ہیں۔
رکن عالم! آپ کا چشمہ رواں ہے آج بھی
یہ محمد کی تجلی ضوفشاں ہے آج بھی