عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلّم نے سوائے اپنے سفید خچر کے جس پر سوار ہوا کرتے تھے اور اپنے ہتھیار کے اور زمین کے جسے اللہ کے راستہ میں دے دیا تھا کچھ نہ چھوڑا تھا نہ دینار نہ درہم نہ غلام۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے خیبر میں (حصہ میں) ایک زمین ملی، میں رسول اللہ ؐ کے پاس آیا اور آپ سے کہا مجھے بہت اچھی زمین ملی ہے، مجھے اس سے زیادہ محبوب و پسندیدہ مال (کبھی) نہ ملا تھا، آپ نے فرمایا اگر چاہو تو صدقہ کرسکتے ہو تو انہوں نے اسے بایں طور صدقہ کردیا کہ وہ زمین نہ تو بیچی جائے گی اور نہ ہی کسی کو ہبہ کی جائے گی اور اس کی پیداوار فقیروں، محتاجوں اور قرابت داروں میں، گردن چھڑانے (یعنی غلام آزاد کرانے میں) ، مہمانوں کو کھلانے پلانے اور مسافروں کی مدد و امداد میں صرف کی جائے گی اور کچھ حرج نہیں اگر اس کا ولی، نگراں، محافظ و مہتمم اس میں سے کھائے مگر شرط یہ ہے کہ وہ معروف طریقے (انصاف و اعتدال) سے کھائے (کھانے کے نام پر لے کر) مالدار بننے کا خواہشمند نہ ہو اور دوسروں (دوستوں) کو کھلائے۔
ابوامامہ بن سہل بن حنیفؓ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان ؓ نے ان (بلوائیوں) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے؟ میں نے رسول اللہ ؐ کو فرماتے سنا ہے: کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں: ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کا ارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کر دے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مرتد ہوجائے) ، اللہ کی قسم میں نے نہ کبھی جاہلیت میں زنا کیا، اور نہ اسلام میں، نہ میں نے کسی مسلمان کو قتل کیا، اور نہ ہی اسلام لانے کے بعد ارتداد کا شکار ہوا ۔ عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: کسی مسلمان کا جو صرف اللہ کے معبود برحق ہونے، اور میرے اللہ کا رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو، خون کرنا حلال نہیں، البتہ تین باتوں میں سے کوئی ایک بات ہو تو حلال ہے: اگر اس نے کسی کی جان ناحق لی ہو، یا شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہوا ہو، یا اپنے دین (اسلام) کو چھوڑ کر مسلمانوں کی جماعت سے الگ ہوگیا ہو (یعنی مرتد ہوگیا ہو)۔ معاویہ بن حیدہ قشیری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی ایسے مشرک کا کوئی عمل قبول نہیں کرے گا جو اسلام لانے کے بعد شرک کرے، الا یہ کہ وہ پھر مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے مل جائے۔ عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ؐ کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کیا گیا، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی، آپؐ نے مجھے (غزوہ میں شریک ہونے کی) اجازت نہیں دی، لیکن جب مجھے آپ کے سامنے غزوہ خندق کے دن پیش کیا گیا، تو آپؐ نے اجازت دے دی، اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ نافع کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے عمر بن عبدالعزیز سے ان کے عہد خلافت میں بیان کی تو انہوں نے کہا: یہی نابالغ اور بالغ کی حد ہے۔
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا: جو اپنے مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اور جو اپنے مسلمان بھائی کا کوئی عیب فاش کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کا عیب فاش کرے گا، یہاں تک کہ وہ اسے اس کے گھر میں بھی ذلیل کرے گا۔ ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، قریش کافی فکرمند ہوئے اور کہا: اس کے سلسلے میں رسول اللہ ؐ سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: رسول اللہ ؐ کے چہیتے اسامہ بن زید ؓ کے علاوہ کون اس کی جرات کرسکتا ہے؟ چناچہ اسامہؓ نے رسول اللہ ؐ سے گفتگو کی تو آپ ؐ نے فرمایا: کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو ؟ پھر آپ ؐ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بناء پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کمزور حال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے۔ اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا۔ محمد بن رمح (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میں نے لیث بن سعد کو کہتے سنا: اللہ تعالیٰ نے فاطمہؓ کو چوری کرنے سے محفوظ رکھا اور ہر مسلمان کو ایسا ہی کہنا چاہیئے۔ مسعود بن اسود ؓ کہتے ہیں کہ جب اس عورت (فاطمہ بنت اسود) نے رسول اللہ ؐ کے گھر سے چادر چرائی تو ہمیں اس کی بڑی فکر ہوئی، وہ قریشی عورت تھی، چناچہ ہم گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا: ہم اس کے فدیہ میں چالیس اوقیہ ادا کرتے ہیں، رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اس عورت کا پاک کردیا جانا اس کے حق میں بہتر ہے ، جب ہم نے رسول اللہ ؐ کی نرم گفتگو سنی تو (امیدیں لگائے) اسامہؓ کے پاس آئے اور ان سے کہا: رسول اللہ ؐ سے (اس کے سلسلے میں) گفتگو کرو، جب رسول اللہ ؐ نے یہ دیکھا (کہ اسامہ سفارش کر رہے ہیں) تو کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اور فرمایا: کیا بات ہے تم باربار مجھ سے اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟ جو اللہ کی ایک باندی پر ثابت ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر یہ چیز اللہ کے رسول کی بیٹی فاطمہ کے ساتھ پیش آتی، جو اس کے ساتھ پیش آئی ہے تو محمد اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین