مقبول اندازوں کے برعکس ڈونلڈ ٹرمپ بھاری اکثریت سے امریکی صدر منتخب ہو گئے۔ اندازے سب کے یہی تھے کہ وہ جیتے تو 19 ،20 کے فرق سے ہی جیت پائیں گے کہ مقابلہ برابر کا ہے لیکن مقابلہ برابر کا نہیں نکلا۔ انہوں نے کمیلا ہیرس کو 50 لاکھ سے بھی زیادہ ووٹوں سے شکست دی اور الیکٹورل ووٹ بھی اچھی خاصی تعداد میں لئے۔
اب وہ بقول ان کے امریکہ میں سنہری دور لانے والے ہیں۔ ایک نجومی نے مجھے بتایا کہ صدر بائیڈن نے امریکہ کا جتنا بیڑہ غرق کیا، ٹرمپ اس سے بھی زیادہ کریں گے۔ شاید سنہرا دور اسی کو کہتے ہیں۔
پاکستان میں بھی ایک سنہرا دور عمران خاں کی قیادت میں آیا تھا، افسوس، ساڑھے تین سال بعد ہی وہ سنہری آفتاب غرقاب ہو گیا۔
اب دنیا سوچ رہی ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔ چین اور ایران پریشان ہیں۔ چینی مصنوعات کی کھپت والی امریکی منڈی کے بارے میں ٹرمپ کا فیصلہ ہے کہ وہ اس سال کے کارخانے امریکہ میں لگائے گا تاکہ بے روزگاری کم ہو، یوں چینی مال کی کھپت کم ہو گی، پھر وہ چینی مصنوعات پر شاید ٹیکس بھی لگائے۔ صدر اوباما نے ایران کے حق میں کئی فیصلے کئے تھے، ٹرمپ نے آ کر وہ واپس لے لئے، اس لئے ایران بھی پریشان ہے۔
ٹرمپ نے کہا ہے وہ صدر بن کر جنگیں ختم کرائیں گے۔ جنگوں سے مراد یوکرائن کی جنگ ہے جو بیک وقت، روس اور نیٹو دونوں کیلئے بقا کی جنگ بن گئی ہے۔ روس کیلئے زیادہ۔ یوں ٹرمپ کی تقریر سے روس زیادہ خوش ہو گا۔
لیکن کیا جنگوں میں غزہ کی جنگ بھی شامل ہے جن کو ٹرمپ بند کرانا چاہتے ہیں؟ کیونکہ ٹرمپ کی ماضی کی تقریروں اور مجموعی امریکی ریاستی پالیسی کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ غزہ کی جنگ کوئی جنگ ہے ہی نہیں، یہ تو 20 لاکھ دہشت گردوں کیخلاف اسرائیل کا آپریشن کلین اپ ہے اور ہر امن پسند کا فرض ہے کہ وہ 20 لاکھ دہشت گردوں میں سے آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اسرائیل کا ساتھ دے۔ بائیڈن نے بہت ساتھ دیا، اب ٹرمپ بھی دیں گے۔ مظلوم اسرائیلیوں کو عالمی (امریکی) ضمیر تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔
لیکن ایک بات ایسی ہے جس سے غزہ میں جنگ بند ہونے کا امکان نکل سکتا ہے۔ اگرچہ یہ امکان بھی شاید کے زمرے میں بری طرح شامل ہے۔
وہ یہ کہ ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی کا سب سے بڑا تاج اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لے، اور دونوں ملکوں کے درمیان مثالی بھائی چارہ قائم ہو جائے۔ ٹرمپ نے اسے صدی کی ڈیل کا نام دیا تھا، اپنے پچھلے دور میں
دونوں ملکوں کے درمیان مثالی بھائی چارہ تو پہلے ہی موجود ہے اور بہت زیادہ موجود ہے لیکن ابھی تک سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی رسمی کارروائی نہیں کی۔ اور ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے سے ایک دو دن پہلے ہی یہ شرط لگا دی ہے کہ غزہ کی جنگ ختم کرکے دو ریاستی حل کی طرف بڑھا جائے۔
چنانچہ ٹرمپ یہ سب سے بڑا سہرا سجانے کیلئے جنگ بندی کرا بھی سکتے ہیں۔ اندازہ ہی ہے دعویٰ نہیں، دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ سرکاری طور پر غزہ کی 45 ہزار آبادی شہید، ایک لاکھ زخمی ہو چکی ہے، غیر سرکاری اور حقیقت سے قریب اندازے یہ ہیں کہ دو لاکھ شہید اور 3 لاکھ زخمی ہو چکے ہیں یعنی غزہ کی 25 فیصد آبادی ختم یا ناکارہ بنائی جا چکی ہے، کیونکہ غزہ میں زخمی ہونے کا مطلب ہاتھ یا پائوں کا فریکچر ہونا نہیں، کٹ جانا ہوتا ہے۔
ایک سال میں 25 فیصد آبادی یوں ختم، مزید تین سال درکار ہیں جس کے بعد غزہ کا مسئلہ ختم ہو جائے گا یعنی حل طلب مسائل کی فہرست سے نکل جائے گا۔
______
دلّی کے مرحوم اردو بازار کا چھوٹا سا نوحہ ایک اخبار میں چھپا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں اردو کی کتابوں کی یہ مارکیٹ اب سکڑ کر چند دکانوں پر مشتمل ہی رہ گئی ہے اور یہ دکاندار بھی سارا دن اداس بیٹھے رہتے ہیں کہ بہت کم گاہک آتے ہیں۔ ایک دکاندار محفوظ عالم کا خاص طور سے ذکر کیا گیا۔
بھارت میں اردو کی حالت بہت اچھی نہیں ہے لیکن اتنی خراب بھی نہیں ہے جتنی دلّی میں ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ 1947ء میں ہندوستان سے اردو بولنے والے مسلمانوں نے جزوی ہجرت کی لیکن دلّی سے تقریباً کلّی ہجرت کی۔ سکھوں کی یورش اتنی زیادہ تھی کہ دلّی اردو بولنے والوں سے قریب قریب خالی ہو گیا، یہاں تک کہ اسلامی نین نقش والے دلّی میں صرف چار ساڑھے چار فیصد مسلمان ہی رہ گئے۔ تو اردو کی حالت زیادہ خراب یوں ہوئی۔
پھر دلّی کا پھیلا ہوا اور دو کروڑ کی آبادی ہو گئی۔ مسلمانوں کی گنتی بھی بڑھی اور اب اس شہر میں مسلمان تیرہ فیصد ہیں لیکن ان کی اکثریت مغربی بنگال اور دوسرے علاقوں سے آئی ہے، اردو نہیں جانتی ہے۔ یعنی اردو بولنے والے پڑھنے والے بہت ہی کم ہیں۔ ہاں ہندوستانی بولنے والے خاصے ہیں جو تقریباً اردو جیسی ہی زبان ہے لیکن یہ دیو ناگری میں لکھی جانے والی زبان ہے یعنی لکھنے میں ہندی ہی ہے۔ چنانچہ اردو کی حالت پتلی ہے، مزید پتلی ہونے کی امید ہے۔
دھلّی سے اب بھی اردو کے کئی اخبارات نکلتے ہیں لیکن ان کی کھپت مغربی یو پی، ہریانے اور شمالی راجستھان میں ہے، دلّی میں نہیں۔
______
اردو کی حالت پاکستان میں بہت اچھی ہے۔ ایسا ہی ہے ناں؟۔ لیکن زیادہ دیر اچھی نہیں رہے گی۔ ریاستوں کے دشمن بعض اوقات ریاستوں کے حکمران ہی ہوا کرتے ہیں۔ بھارت پاکستان کا سب سے بڑا دشمن پرویز مشرف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اب تو خیر وہ اگلے جہان سدھار چکا۔ اسلام اور اردو، دونوں کا خاتمہ اس کی زندگی کا مشن تھا حالانکہ وہ پیدائشی مسلمان تھا اور اردو دان گھرانے کا فرزند تھا۔
اسلام اور اردو کے علاوہ اسے پاکستانیوں کی اکثریت سے بھی نفرت تھی۔ نفرت کا یہ سہ شاخہ ترشول پکڑے اس نے تعلیم کو نجی کاروبار بنا دیا۔ آج ملک میں بڑے تعلیمی اداروں کے ’’چین‘‘ Chain ہیں جو پاکستان سے اسلام اور اردو، دونوں کو دیس نکالا دے رہے ہیں اور غریب اور لوئر مڈل کلاس آبادی کو بتا رہے ہیں کہ تمہارے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں، بلکہ تمہیں اس ملک میں ہی زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔
ان تعلیمی اداروں میں ھالو وین ، کرسمس، نیو ایئر، ھولی دیوالی کے تہوار منائے جاتے ہیں۔ ھالو وین مغرب میں ھلّے گلّے اور شغل میلے کا تہوار ہے لیکن پاکستان میں یہ ایلیٹ بلکہ سپر ایلیٹ کلاس کا سالانہ ’’کانگری گیشن‘‘ ہے۔ سپر ایلیٹ اس روز ننگی ہو کر ننگا ناچ ناچتی ہے۔
پرویز مشرف کے اس مشن کو پورا کرنے اور رہی سہی کسر نکالنے کیلئے اب موجودہ حکومت بھی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آ گئی ہے۔ جو رہے سہے سرکاری تعلیمی ادارے غریبوں کے بچوں کو تعلیم دے رہے تھے، انہیں نجی تعلیمی اداروں کے ہاتھ می بیچا جا رہا ہے۔ جو رہے سہے غریب اب بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں پڑھانے کی ہمت کر رہے ہیں، انہیں نشان عبرت بنانے کیلئے حکومت آہنی عزم اور ارادے سے روبعمل ہے۔
______
کے پی کے وزیر اعلیٰ گنڈا پور نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ قائد کا اعلان ہوتے ہی سارا ملک سڑکوں پر نکل آئے گا، اسلام آباد جائیں گے، مرشد کو رہا کرائیں گے۔
’’سارا ملک‘‘ سے مراد وہ پانچ سے سات ہزار افراد ہیں جو ہر بڑی کال پر پشاور سے براستہ صوابی اسلام آباد کا رخ کرتے اور راستے ہی میں بھادوں کے پتّوں کی طرح بکھر جاتے ہیں۔ اطلاع یا اندازہ ہے کہ اب کی بار ’’سارا ملک‘‘ کی گنتی تین سے چار ہزار ہو گی۔ گنڈاپور کس مقام سے ’’کیفے سندیسہ‘‘ کا رخ کریں گے، اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔