سیاست کے بادشاہ گر؟

سچ تو یہ ہے کہ جنرل فیض حمید ایک آدمی کا نام نہیں تھا وہ " ون مین آرمی " تھے۔ جو کچھ وہ کہتے سوچتے وہ اپنی عقل و بہترین منصوبہ بندی کے تحت کرتے ، ان کاراستہ روکنا اور ان کے بنائے گئے منصوبوں کو نقصان پہنچانے والے شوکت صدیقی کی طرح فائز عیسی کی طرح خوار ہوتے تھے اور وہ ہر طرف اپنا فوجی اختیار اور سیاسی چادر اوڑھ کر چلتے رہے اور آنے والے وقت کے لئے بہترین منصوبہ بندی کر کے اس کی نگرانی کرتے رہے اور اس ملک کو پرانے سیاستدانوں گھسی پٹی نظام پارلیمانی سے نجات دلا کر وہ یہاں صدارتی نظام رائج کر کے اس ملک کو  نئی پٹڑی پر روانہ کرنے والے تھے. مشہور بہترین و مقبول سیاستدان عمران خان بھی ان کی مٹی میں تھے اورشاید دونوں اپنے طور پر بہت مخلص بھی تھے کہ ان جاگیرداروں وراثتی سیاستدانوں اور مولویوں سے کسی طرح یہ ملک ازاد کرا کر یہاں حقیقی ازادی کا جھنڈا لہرا کر عوام کو ان ظالموں جابروں تجربہ کار سیاست کے گورووں سے مکمل نجات دلائی جائے .شطرنج کی طرح سیاست کا کھیل بھی جاری تھا اور ہر نیا دن نئی منزل کی طرف ایک قدم کے برابر بڑی احتیاط کے ساتھ اٹھایا جا رہا تھا اور روزانہ باجوہ فیض اور خان کی میٹنگز ان تمام سوچوں اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے منعقد کی جا رہی تھی کہ کہیں کوء￿  اس طویل منصوبہ کو نقصان نہ پہنچا دیں .فیض نے سپریم کورٹ سنبھالی، ہائی کورٹ کو  کمانڈ میں رکھا اور جب باجوہ ناراض ہو کر ریٹائرڈ ہو رہے تھے تو فیض نے انھیں راضی کیا کیونکہ اگر وہ جلدی جاتے تو بطور چیف اف آرمی سٹاف کے فیض کی باری خطرے میں پڑ جاتی اور ان کا سارا برسوں کا منصوبہ خاک میں مل جاتا  اسی لئے اس نے اپنے باس باجوہ کو شیشے میں اتارا اور مزید تین سال کے لئے ملک کی سب سے طاقتور کرسی اس کے حوالہ کی اور یوں فیض حمید بے فکر ہو کر سیاستدانوں اور ججوں کو اپنے فوجی ڈنڈے سے ہانکتا رہا اور جب پیسوں کی ضرورت ہوتی تو اس کے لئے یہ کام اتنا مشکل نہ تھا . سینیٹ میں قومی اسمبلی میں کورٹ میں فوج میں ہر جگہ اس کا طوطی بول رہا تھا اور ہر طرف اس کے نام کا ڈنکا بج رہا تھا .اچانک باجوہ کے کان میں اتنے بڑے منصوبے کی بھنگ پڑ گئی یا وہ تھوڑا سا چوکنا ہو گیا تو اسے کچھ نہ کچھ دال میں کالا نظر انے لگا اور جب ندیم انجم کو اس نے فیض کی جگہ رکھ دیا تو یہی وہ شطرنج کا اہم مہرہ تھا جہاں سے برسوں کا بنایا گیا کھیل خطرے میں پڑ گیا اور یوں خوابوں کی دنیا کو ایک ہی تیز نعرے نے پلٹ کے رکھ دیا اور پھر باجوہ بھی اگے بڑھتا رہا فیض بھی سینگ لڑاتا رہا اور خان بھی فیض کو اور اپنے منصوبہ کو بچانے کے لئے سرگرم ہو گیا لیکن اس دوران خان سے کچھ خطرناک غلطیاں ہوئیں جس کا ازالہ مشکل تھا اور قومی اسمبلی ، پنجاب و پختومخواہ اسمبلیاں توڑنے کے بعد خان خالی ہاتھ رہ گئے اور اسی دوران وہ فیصلہ ہوا جس نے فیض کی ساری منصوبہ بندی سے بنائے گئے جنت کے درودیوار اڑا دئیے اور ان کی جگہ عاصم منیر ملک کے چیف اف ارمی سٹاف بن گئے جن کے پیچھے میاں نواز شریف کی سوچ فکر اور طاقت تھی جس نے سب کچھ بدل دیا .اب فیض حراست میںاور خان سلاخوں کے پیچھے ہیں اور شہباز و زرداری اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہیں اور فیض حمید کے منصوبوں سے سبق حاصل کر کے لمبی اور طویل منصوبہ بندی کے تحت اپنی اقتدار کو طول دینے کے لئے قومی اسمبلی و سینیٹ کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر رہے ہیں اور پہلے مرحلے میں اپنی انکھوں کا کانٹا ،منصور علی شاہ کو راستے سے ہٹایا اور اب ایک اور قانون سازی سے چیف اف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں تین سال کی جگہ پانچ سال کی مدت رکھ دی تاکہ یہ ائندہ سال انے والے زلزلے سے یہ حکومت یہ اقتدار کی کشتی اور یہ شخصیات محفوظ رہیں اور ان ساری منصوبوں کے پیچھے نواز شریف زرداری اور مولانا فضل شامل ہیں اور یہ تینوں قدم قدم پر خان کا راستہ روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور ہر وہ راستہ بند کرنے کی کوشش و تگ و دو میں مگن ہیں جس سے خان کو تھوڑی سی بھی امید کی کرن نظر ارہی ہے .اس وقت حالات پر میاں صاحب کا مکمل اختیار پے اور تحریک انصاف دن بدن مشکلات میں دبی جا رہی ہے اور ان کے پاس اس دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں ارہاہے اور نہ کوء￿  ایسی تحریک تجویز یاشخصیت ان کے پاس ہیجو بھنور میں پھنسی تحریک انصاف کی کشتی کو جس میں خان بھیٹے پھنسے ہیں انھیں نکال سکیں.تحریک انصاف اگر چہ مصائب میں گری ہے مشکلات کا شکار ہے لیکن ان کے لیڈر کی استقامت اور عوام کے اندر اس کی مقبولیت کا سمندر کسی طرح بھی اتر نہیں رہا ہے اور جتنی بھی کوششیں ہو رہی ہیں اس کا نتیجہ بلکل الٹ ا رہا ہے اور وہ مقبولیت کے اسمان پر نظر ارہے ہیں.اگر حکومت کسی طرح مقبولیت کا یہ دیو اپنے قابو میں رکھ کر خان کو بے دست و پا کر گء￿  تو اس ملک پر ہمیشہ کے لئے انھی لوگوں کا ان ہی چہروں کا اور انھی خاندانوں کی حکومت ہو گی اور اگر خان ازاد ہو گیا ملک میں ازاد الیکشن ہوئے تو یہ سارا نقشہ شاید ایل دفعہ پھر پلٹ کے رکھ دے گا .فی الحال شہباز شریف صاحب چین کی بانسری بجا رہا ہے میاں صاحب سکھ کی سانسیں لے رہا ہے اور زرداری بلاول ارام سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور درمیان درمیان میں مولانا بھی اپنی سیاست چمکا کر خود کو کبھی ولن اور کبھی ہیرو کے طور پر سامنے لا رہا ہے اور اپنے چند ووٹوں سے میدان کو چمکا رہا ہے .…آخری بات یہ ہے کہ کل کی تیزی کے ساتھ ارمی چیف کی پانچ سالہ مدت نے ملک پر ایک خاموش سردی کی چادر لپیٹ دی ہے جس کے اندر سب سردیاں گزارنے کی فکر میں لگے ہیں.ہر طرف مکمل خاموشی نے برسوں کی سیاسی شور سے لوگوں کو نجات دلاء￿  ہے اور ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ ائندہ تحریک انصاف کوئی شور و واویلہ کر پائے گی؟

ای پیپر دی نیشن