صدر جمعیت اہلحدیث پاکستان

موجودہ اسلامی بینکاری نظام: آیا یہ واقعی شریعت کے مطابق ہے؟

تعارف
اسلامی بینکاری کا تصور قرآن و حدیث کی تعلیمات پر مبنی ہے، جو مالی معاملات میں شریعت کے اصولوں کی پاسداری کی تاکید کرتا ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں چلنے والے کئی اسلامی بینکوں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ واقعی اسلامی اصولوں کی مکمل پابندی کر رہے ہیں یا نہیں۔ اس تحریر میں ہم موجودہ اسلامی بینکاری نظام کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ کیا یہ واقعی شریعت کے مطابق ہیں یا ان میں سود (ربا) کا نظام باقی ہے۔
اسلامی بینکاری کے اصول
اسلامی بینکاری کے بنیادی اصول قرآن اور حدیث میں واضح کیے گئے ہیں:
1. ربا کی ممانعت: اسلام میں سود (ربا) کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔ قرآن میں ربا کے بارے میں واضح احکامات ہیں:
> "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سود (ربا) سے بچو، جو کہ بہت بڑا گناہ ہے۔" (سورہ آل عمران: 130)
2. امانت اور شراکت داری: اسلامی بینکاری میں امانت کی اہمیت ہے۔ یعنی کہ مالی معاملات میں امانت داری اور شراکت داری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ نبوی طریقہ میں بھی مالی معاملات میں شفافیت اور امانت داری پر زور دیا گیا ہے۔
3. حلال ذرائع آمدنی: مالی معاملات میں حلال ذرائع سے کمائی پر زور دیا گیا ہے، اور غیر حلال سرگرمیوں سے پرہیز کی تاکید کی گئی ہے۔
موجودہ اسلامی بینکاری نظام کی خامیاں
اگرچہ موجودہ دور میں کئی بینکوں نے اپنے آپ کو اسلامی بینک قرار دیا ہے، لیکن عملی طور پر وہ کئی اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی کر رہے ہیں:
1. سود کا استعمال: بہت سے اسلامی بینک اب بھی سود کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں، جو کہ شریعت کی خلاف ورزی ہے۔ قرضوں پر سود وصول کرنا اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔
2. مصنوعی ساختیں: کچھ بینک شرعی حیثیت حاصل کرنے کے لئے مصنوعی ساختیں استعمال کر رہے ہیں، جیسے کہ مرابحہ یا اجارہ، جو دراصل سود کی طرح کام کر رہی ہیں۔
3. شفافیت کی کمی: مالی معاملات میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے صارفین کو مکمل یقین نہیں ہوتا کہ ان کے پیسے واقعی اسلامی اصولوں کے مطابق استعمال ہو رہے ہیں۔
امانت خانوں کا تصور
قرآن و حدیث کے مطابق، مالی معاملات میں امانت داری اور شراکت داری کو ترجیح دی جاتی ہے۔ امانت خانہ، یا House Trust ، کا تصور نبوی طریقہ کی عکاسی کرتا ہے جہاں مالی معاملات میں شفافیت، امانت داری، اور شراکت داری پر زور دیا جاتا ہے۔
1. شراکت داری: امانت خانہ میں شراکت داری کے ذریعے مالی معاملات کو انجام دیا جاتا ہے، جس میں منافع اور نقصان دونوں کی تقسیم ہوتی ہے۔
2. شفافیت: تمام مالی معاملات میں مکمل شفافیت ہوتی ہے، تاکہ ہر فریق کو اپنی ذمے داریوں کا علم ہو۔
3. غیر سودی نظام: امانت خانہ سود کے بغیر کام کرتا ہے، اور تمام مالی معاملات اسلامی اصولوں کے مطابق انجام دیے جاتے ہیں۔
نتیجہ
اسلامی بینکاری کا مقصد مسلمانوں کو سود سے پاک مالی نظام فراہم کرنا ہے، لیکن موجودہ دور میں کئی اسلامی بینک شریعت کے اصل اصولوں کی پاسداری نہیں کر رہے ہیں۔ امانت خانہ کا تصور ایک ایسا حل پیش کرتا ہے جو حقیقی اسلامی بینکاری کے اصولوں پر مبنی ہے، جہاں امانت داری، شراکت داری، اور شفافیت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ایسے بینکوں کا انتخاب کریں جو واقعی اسلامی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوں، تاکہ ان کا مالی نظام شریعت کے مطابق ہو اور ان کی اقتصادی ترقی حلال ذرائع سے ہو سکے۔
سفارشات
1. بینکوں کی شرعی نگرانی: اسلامی بینکوں پر سخت شرعی نگرانی ہونی چاہیے تاکہ وہ واقعی اسلامی اصولوں کی پاسداری کریں۔
2. تعلیم و شعور: عوام میں اسلامی مالی اصولوں کے بارے میں شعور بیدار کیا جائے تاکہ وہ صحیح بینک کا انتخاب کر سکیں۔
3. پیداوار اور شراکت داری: بینکوں کو چاہیے کہ وہ شراکت داری پر مبنی مالی مصنوعات پیش کریں جو حلال اور شریعت کے مطابق ہوں۔
اسلامی مالی نظام کی بہتری کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم شرعی اصولوں کی گہری سمجھ بوجھ حاصل کریں اور ان پر عمل پیرا ہوں۔ صرف اسی صورت میں ہم ایک حقیقی اسلامی بینکاری نظام تشکیل دے سکتے ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کی مالی ضروریات کو پورا کرے بلکہ شریعت کی روح کو بھی زندہ رکھے۔
سودی نظام کو ختم کرنے کے لیے اسلام نے ایسا معاشی نظام دیا ہے جس میں سرمایہ کاری کے ذریعے نفع اور نقصان دونوں کے امکانات کو قبول کیا گیا ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق، سرمایہ کاری اور تجارت کے اصولوں کو اپنانا اسلامی معیشت کا حصہ ہے، اور اس کے ذریعے سودی نظام کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ اسلامی معاشی نظام میں سرمایہ کاری کا تصور اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ انسان اپنی سرمایہ کاری کی بنیاد پر پرافٹ یا نقصان کے امکانات کا سامنا کرتا ہے، جو کہ سود سے پاک ہے اور شریعت کے مطابق ہے۔
سرمایہ کاری کے اسلامی اصول:
1. مشترکہ شراکت داری (مضاربہ): یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں ایک شخص (سرمایہ کار) اپنا سرمایہ فراہم کرتا ہے، جبکہ دوسرا شخص (کاروباری پارٹنر) اسے کاروبار میں لگاتا ہے۔ دونوں کے درمیان طے شدہ اصولوں کے مطابق اگر کاروبار میں نفع ہوتا ہے تو وہ تقسیم کیا جاتا ہے، اور اگر نقصان ہو تو سرمایہ کار اسے برداشت کرتا ہے۔
2. شراکت (مشارکہ): یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جس میں دو یا زیادہ افراد مشترکہ طور پر سرمایہ لگاتے ہیں اور کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع کو تناسب کے مطابق تقسیم کرتے ہیں۔ اگر نقصان ہو تو وہ بھی سرمایہ کے تناسب سے برداشت کیا جاتا ہے۔
3. لیز (اجارہ): اس میں اثاثوں کو لیز پر دینے کے اصول شامل ہیں۔ یعنی کوئی شخص اپنا اثاثہ یا پراپرٹی کسی دوسرے شخص کو مخصوص مدت کے لیے کرائے پر دے سکتا ہے۔ کرایہ دینا اور لینا سود میں شامل نہیں ہوتا اور یہ ایک جائز عمل ہے۔
اسلامی سرمایہ کاری کمپنیوں کا کردار:
اسلامی سرمایہ کاری کمپنیاں اس اصول پر قائم ہوتی ہیں کہ وہ لوگوں کا سرمایہ مختلف منصوبوں میں لگا کر پرافٹ یا نقصان دونوں کے امکانات کو تسلیم کرتی ہیں۔ ان کمپنیوں میں شراکت داری، مضاربہ، اور اجارہ کے اصولوں پر عمل کیا جاتا ہے تاکہ کسی بھی قسم کا سود شامل نہ ہو۔ ان کمپنیوں کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ کاروں کو نفع حاصل ہو، لیکن اگر نقصان ہو تو وہ بھی شرعی اصولوں کے تحت تقسیم کیا جائے۔
سودی نظام سے نکلنے کا راستہ:
اسلامی معیشت میں سود کو مکمل طور پر ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس کے متبادل کے طور پر تجارت اور سرمایہ کاری کے مختلف طریقے پیش کیے گئے ہیں۔ ان طریقوں پر عمل کرتے ہوئے مسلمان نہ صرف حلال رزق حاصل کرسکتے ہیں بلکہ سودی نظام سے نجات بھی پا سکتے ہیں۔ اسلامی سرمایہ کاری کمپنیاں اسی مقصد کے تحت کام کرتی ہیں تاکہ لوگوں کو سود سے پاک پرافٹ کے مواقع فراہم کیے جاسکیں۔
اس طریقے سے اسلامی معاشی اصولوں پر مبنی نظام قائم کیا جا سکتا ہے جو سود سے پاک ہو اور معاشرتی اور معاشی انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں سود کی حرمت۔
جولوگ سود کھاتے ہیں وہ یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔اس کی وجہ ان کا یہ قول ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام ،اب جس شخص کو اس کے ربّ کی طرف سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک جائے تو پہلے جو سود کھا چکا اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ دوزخی ہیں ، جس میں ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے بندے کو پسند نہیں کرتا۔''سورہ البقرہ 285?287
''اے ایمان والو! سود کو دگنا چوگنا کر کے مت کھاؤ اور اللّٰہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم آخرت میں نجات پاسکو۔'' سورہ ال عمران 130
سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

''سات مہلک گناہوں سے بچو۔ صحابہ نے پوچھا :اللّٰہ کے نبی?! وہ کون سے گناہ ہیں؟آپؐنے فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا ،جس نفس کو اللہ نے حرام کیا ہے، اس کو ناحق قتل کرنا ،سود کھانا ،یتیم کا مال کھانا،جنگ کے دن پیٹھ دکھا کر بھاگنا ،پاک دامن اور بھولی بھالی عورتوں پر تہمت لگانا۔ 'صحیح بخاری:2726
حضرت عبداللّٰہ بن حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺنے فرمایا:
''ربا کا ایک درہم جو انسان علم ہونے کے باوجود کھاتا ہے (چھتیس) زناؤں سے زیادہ سخت ہے۔''مسند احمد: 20951
آئین کی 26ویں ترمیم کے مطابق سود کا مکمل خاتمہ۔ ملکی قانون کے تحت ایک اہم فریضہ ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے درج ذیل پانچ سالہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے:
1.پہلا سال: آگاہی اور منصوبہ بندی
قانون سازی: مرکزی حکومت، اسٹیٹ بینک، اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مل کر ایک قانونی فریم ورک تیار کرے جس کے ذریعے سودی نظام کے خاتمے کا عمل شروع کیا جا سکے۔آگاہی مہم: عوام اور کاروباری طبقے کو سودی نظام کے مضر اثرات اور اسلام کے مطابق متبادل مالیاتی نظام کی اہمیت سے آگاہ کرنے کے لیے سیمینارز، ورکشاپس اور میڈیا کمپینز کا آغاز کیا جائے۔
بینکوں اور مالیاتی اداروں سے مشاورت: سودی نظام سے متبادل نظام کی طرف منتقلی کے لیے تجارتی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔
2.دوسرا سال: اسلامی مالیاتی نظام کا تعارف.
اسلامی بینکنگ سروسز کا آغاز: ملک میں اسلامی بینکنگ سروسز کو فروغ دینے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے اور اسلامی بینکنگ کے ماڈلز کا تعارف کرایا جائے۔حکومتی اداروں کی اصلاحات: تمام حکومتی اداروں، خصوصاً اسٹیٹ بینک اور نیشنل بینک، کو اسلامی مالیاتی اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔
ٹیکنیکل ٹریننگ: بینکنگ سیکٹر اور مالیاتی اداروں کے ملازمین کو اسلامی مالیاتی اصولوں کی ٹریننگ فراہم کی جائے۔
3۔تیسرا سال: جزوی نفاذ اور تجزیہ
جزوی نفاذ: ابتدائی طور پر چند حکومتی ادارے اور بڑے مالیاتی ادارے سودی نظام کو چھوڑ کر اسلامی مالیاتی نظام پر عمل درآمد شروع کریں۔
تجزیہ اور اصلاحات: اس عمل کے دوران درپیش مسائل اور رکاوٹوں کی نشاندہی کی جائے اور اصلاحات متعارف کرائی جائیں۔
4.چوتھا سال: مکمل نفاذ کی تیاری.
سرکاری سطح پر مکمل نفاذ: تمام سرکاری ادارے، خصوصاً مالیاتی شعبہ، سودی نظام کو مکمل طور پر ترک کریں اور اسلامی مالیاتی اصولوں پر مبنی طریقہ کار اپنائیں۔
قانونی و تکنیکی مدد: تمام کاروباری اداروں اور بینکوں کو اسلامی مالیاتی نظام پر مکمل منتقلی کے لیے قانونی اور تکنیکی مدد فراہم کی جائے۔
5.پانچواں سال: مکمل سودی نظام کا خاتمہ
مکمل نفاذ: اسٹیٹ بینک کی نگرانی میں سودی نظام کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے اور اسلامی مالیاتی نظام کو سرکاری و نجی شعبے میں پوری طرح نافذ کیا جائے۔
جائزہ اور نگرانی:
 اس سارے عمل کی نگرانی اور جائزہ لیا جائے تاکہ اسلامی مالیاتی نظام کو مضبوطی سے نافذ کیا جا سکے اور کوئی ادارہ دوبارہ سودی نظام کی طرف نہ جا سکے۔
اختتامیہ۔
پانچ سال کے اس منصوبے کے اختتام پر پاکستان میں سودی نظام کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے، اور اسلامی مالیاتی نظام کو مکمل طور پر اپنانے کے بعد ملک میں معاشی خوشحالی اور برکت کی فضا قائم کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، حکومت اور عوام کے درمیان تعاون، اعتماد اور اسلامی اصولوں کے نفاذ سے ایک بہتر معاشرتی اور معاشی نظام کی تشکیل ممکن ہوگی۔ختم شد۔

ای پیپر دی نیشن