ربِ کل جہاں نے نے جب یہ کائینات تخلیق فرمائی تو ہر شئے نے رب کی بارگاہ میں سجدہ شکر ادا کیا
اور اپنے خالق مالک کل کائنات کی بادشاہی کو تسلیم کیا اور اپنی بندگی کا اظہار کیا۔۔۔۔ ہر شئے کے ہاتھ میں کاسہ گدائی ہے۔۔۔ سب کی طلب کے اپنے اپنے کاسے ہوتے ہیں۔۔۔ زمین کی اپنی لگن ہے جس کے چوگرد گھوم رہی ہے فلک کی اپنی خواہش۔ و طلب جس میں وہ بادل ہوا کو اڑائے رکھتا ہے۔۔۔شب کی اپنی لگن وہ ستاروں کا آنچل اوڑھ کر تو کبھی سیاہ رنگ پہن کر بس چاند کی مہتابی بندیا کو ماتھے پر سجائے رکھنا چاہتی ہے مگر چاند کی اپنی لگن چاند کی طلب میں چکور پاگل تو سمندر ماہ کامل کی چاہ میں پاگل۔۔۔
طلب کے صحرا میں اگر بارش بن مانگے برسنے لگے تو صحرا گلشن بن جائے۔ صحرا کی خشک ریتلی مٹی کی اپنی پیاس ہوتی ہے سمندر کی اپنی الجھنیں جبکہ ساحل کی گیلی مٹی و ریت کی اپنی طلب۔۔دن خاص اور شب ہراس رہتی ہے ۔۔۔
ماہتابی بندیا سجانے اور ستاروں کی اوڑھنی اوڑھ کر فلک کے جنگل کی دونوں ایک دوسرے کے تعاقب میں دونوں کی طلب کی رسائی ان کو ہتھ پھڑائی نہیں دیتی۔۔۔ یہ زندگی خالق کائنات کا عطا کردہ وہ تحفہ ہے جو صرف ایک بار ملتی ہے۔مگر یہ وہ تحفہء خدا وندی ہے جو ایک مقررہ مدت کے بعد واپس لے لیا جاتا ہے۔۔۔۔یہ انسان کا وہ کھٹن سفر ہے جو ایک نہ ایک دن ختم ہونا ہے اور موت اسکا پہلا پڑاؤ ہو گا اور پھر کئی سفر طے کرنے کے بعد عالمِ برزخ انسان کی وقتی منزل اور پھر قیامت کے بعد اعمال کے سبب جو تحفہ اور منزل جنت یا دوزخ ملے گی وہی منزل انسان کی اصل منزل ہے جہاں سارے سفر تمام ہو کر بس ایک منزل جو انسان کی ازلی چاہت ہے جنت کی چاہت۔۔۔۔ جس کا وعدہ رب العالمین نے قرآن پاک میں کیا ہے۔۔۔ مگر اس منزل حقیقی تک پہنچنے کے لئیے بے شمار سفر طے کرنے پڑتے ہیں۔۔۔
زندگی بے پناہ سفاک حقیقتوں کے پردوں میں بھی لہٹی ہوئی ہے۔۔ جو گاہے بگاہے مختلف روپ لے کر اور اشکال میں ہمارے سامنے کھلتی رہتی ہے۔۔۔ زندگی کا یہ پردہ سفاک جب جب کھلتا ہے تو زندگی کی سفاک حقیقتیں سامنے آتی ہیں جو انتہائی درد ناک ہوتی ہیں۔۔
دل ٹوٹنے سے لے کر اعتبار کے ٹوٹنے تک۔
محبت کی مٹھاس کے نفرت کی کھٹاس میں بدلنے تک
خون کے رشتوں میں محبت اپنا پن قربانی کے جذبات پنپنے سے لے کر خونی رشتوں کا اجنبی بن کر دغا فریب اور حسد میں مبتلا ہو کر نفرت کا پردہ سفاک اٹھنے تک
دوستی کے سندر لباس میں حسد لالچ خود غرضی آستین کے سانپ بن کر پلنے کا پردہ سفاک اٹھنے تک
جب زندگی کی آنکھوں کے سامنے موت کا پردہء سفاک کھلتا ہے۔۔۔ تو زندگی کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔۔۔اک نیا جہان جسکا تصور نہ گمان۔۔اک نیا سفر جو پھر ختم نہیں ہو گا
جس کے بعد موت کا تصور نہیں۔۔۔ دو ہی راستے یا خوشی یا غم۔۔۔ یا دکھ یا سکھ۔۔۔اور یہ سب اعمال کی بنیاد پر طے ہو گا اور اسکا اطلاق جسم سے روح نکلنے کے ساتھ ہی ہو جائیگا۔۔۔
زندگی کا ہاتھ اجل کے ہاتھ میں آتے ہی اس سفر کا سلسلہ شروع ہو گا جو قدم قدم ہماریدنیا میں کئے گئے اعمال سے منسلک ہو گا اعمالِ بد اور اعمالِ نیک
ہمارے ساتھ وہاں فرشتوں کا سلوک بے رحمانہ ہو گا ہا رحم کا معاملہ یہ سب ہمارے اعمال پر منحصر ہو گا
ہمیں قبر میں روشنی اور قبر کی فراخی ملے گی یا اندھیروں کی آماجگاہ اور اندھیروں کا کھڑا۔۔۔!ہمیں سکون کی نیند عطا ہو گی یا عذاب یہ سب ہمارے اعمال طے کر ینگے اللہ اکبر اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور توبہ کا دروازہ بند ہو کر موت کا دروازہ کھل جائے اپنے اعمال کی صفیں درست کر لیں۔۔۔
اس دجالی دور کا شر ایک سیلاب کی طرح ہے جو گندگی سے بھرا ہوا ہے۔۔۔ رب تعالی ہمیں اس شر کے گندے پانی میں گرنے سے محفوظ رکھے پاکیزہ زندگی پاکیزہ دل اور پاکیزہ اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
دعا ہے کہ رب تعالی اس دجالی دور میں ہمارے صغیرہ کبیرہ گناہ معاف فرما کر ہمیں نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے اس سے پہلے کہ پردہ سفاک چاک ہو جائے اور ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں
آمین ثمہ آمین
"پردہء سفاک"
Nov 08, 2024