مشرق وسطیٰ کے رہنما ٹرمپ کی جیت پر پرجوش اور خوشی سے سرشار

پوری دنیا سے عالمی رہنما اور سربراہان حکومت امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد کے پیغامات بھیج رہے ہیں۔ مگر ٹرمپ کو مبارک باد کے پیغامات دینے والوں میں مشرق وسطی کے حکام ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے ٹرمپ کو سب سے پہلے مبارکباد کا پیغام بھیجا ہے۔ کہ انہیں امریکی عوام نے دوسری بار صدر منتخب کیا ہے اور وہ امریکہ کے 47 ویں صدر ہوں گے۔سعودی تجزیہ کار علی شہابی کے مطابق ٹرمپ کو خطے سے بھجوائے گئے والہانہ تہنیتی پیغامات خطے کی ٹرمپ کے بارے میں سوچ کے مظہر ہیں اور خطے کے رہنما سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کا دور زیادہ واضح ہوگا۔ جبکہ ان سے پہلے صدر جوبائیڈن کا دور مشرق وسطیٰ میں جھگڑوں اور تصادم سے بھرپور رہا۔ جس میں غزہ میں جاری جنگ اور لبنان کی صورتحال بھی شامل ہے۔ جبکہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی بحیرہ احمر میں جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔جوبائیڈن کی خارجہ پالیسی کی ابتدائی کوششوں میں خلیجی ملکوں کو نشانے پر رکھا گیا۔ ان کے لیے اسلحے کی فراہمی کے معاملات کو منجمد کر دیا گیا۔ جبکہ اپنے ہی اتحادیوں کے ساتھ پہلے سے جاری معاہدات کو نئے سرے سے کرنی کی کوشش کی گئی۔ جس سے فوری طور پر تعلقات پر دھبے آئے۔ ان میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان میں نمایاں طور پر ہدف رہے۔جبکہ امریکی جوبائیڈن انتظامیہ نے ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کو دہشت گردی کی فہرست سے نکال دیا اور پھر دو سال بعد اسی حوثی گروپ نے بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحر ہند میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ۔اگرچہ بعد ازاں جوبائیڈن نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کرتے ہوئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ معاہدات کی بحالی کے لیے کوششیں شروع کر دیں۔ لیکن اس دوران عالمی سطح پر امریکہ کے لیے ایک دھچکے اور عدم بھروسے کا تاثر بن چکا تھا۔ اسی امریکی ساکھ پر افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا نے ایک اور ضرب لگائی۔ یہ فیصلہ بھی جوبائیڈن انتظامیہ نے کیا۔اس پس منظر میں یہ سوال اہم ہوگا کہ ٹرمپ کے از سر نو منتخب ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی خلیجی رہنما ٹرمپ کی دوبارہ واپسی کو دو طرفہ تعلقات کی بحالی کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جس طرح کے ٹرمپ کے پہلے دور میں اچھے تعلقات تھے۔تجزیہ کار شہابی کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی سوچ جوبائیڈن سے بالکل مختلف ہوگی اور وہ اس پوزیشن میں ہوں گے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو مجبور کر سکیں کہ وہ غزہ و لبنان میں جاری جنگوں کا خاتمہ کریں اور مسئلے کا حل نکالیں۔ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں سابقہ امریکی صدور کی روایت کو توڑتے ہوئے 2017 میں سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اس سعودی دورے میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایران سے علاقے کی سلامتی کے مسائل پر ایک مضبوط مؤقف اختیار کیا اور خلیجی رہنماؤں کے ساتھ ٹرمپ نے تعلقات کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔اب ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کو 'العربیہ' ایڈیٹوریل بورڈ کے سربراہ عبدالرحمٰن الراشد نے ریاض کے لیے ایک اچھی خبر قرار دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سعودی و امریکی لیڈرشپ میں مضبوط تعلقات ہیں ۔سلمان الانصاری سعودی سیاسی تجزیہ کار ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ڈیموکریٹس اور ریپیبلیکنز دونوں کے ساتھ تعلقات رہے ہیں۔ تاہم ٹرمپ کے اعلیٰ سٹینڈرڈ اور کمٹمنٹ کو پورا کرنے کے حوالے سے ان کے کردار اور جنگوں کے خاتمے کی کوششیں ان سے توقعات کو بڑھا دیتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ریاض کو پورا یقین ہے کہ امریکی معیشت کی ترقی اور عالمی معاشی خوشحالی کے لیے ٹرمپ اور ولی عہد محمد بن سلمان کا کاروبار کو سمجھنا بہت اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ دونوں کو اپنی مملکتوں سے خوب محبت ہے۔ اس لیے میں پر اعتماد ہوں کہ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات پھر سے بہت زبردست ہوجائیں گے۔متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید نے کہا وہ ٹرمپ کے ساتھ کام کو نئے سرے سے شروع کرنے کے منتظر ہیں کہ وہ ہمارے شراکت دار بھی ہیں اور مستقبل میں امریکی ترقی ، استحکام اور امریکہ کے لیے مواقعوں کے لیے ہم ان کے شراکت دار ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ کے ہی پچھلے ٹنیور میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے متحدہ عرب امارات کا تاریخی معاہدہ ہوا تھا۔ مگر جوبائیڈن اس معاہدے کو دوسرے ملکوں تک کھینچ لے جانے میں کامیاب نہ ہوئے۔خیال رہے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے معاہدے میں متحدہ عرب امارات کے علاوہ مراکش اور سوڈان شامل ہوئے تھے ۔جوبائیڈن نے سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی مگر سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے نے اس میں رکاوٹ پیدا کر دی۔ اب غزہ میں اسرائیل کی بمباری جاری ہے اور ہزاروں سویلینز جن کا حماس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہلاک کیے جا چکے ہیں۔متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان بھی اسرائیلی پالیسیز کی وجہ سے کچھ ٹھنڈک سی ہوگئی ہے۔ حتیٰ کہ مصر ، اردن اور قطر بھی اسرائیل کے رویے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں۔ امریکہ غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کو ختم کرانے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا۔سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل سے کوئی تعلقات نہیں ہو سکتے۔ادھر اسرائیل کے انتہا پسند جو اسرائیلی حکومت کا باقاعدہ حصہ ہیں مسئلے کے دو ریاستی حل کی طرف آنے میں بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ جسے سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات کے لیے ایک پیشگی شرط کے طور پر پیش کر رکھا ہے۔الیکشن سے پہلے ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ نیتن یاہو غزہ کی جنگ کو ختم کریں۔

ای پیپر دی نیشن