امریکی صدارتی انتخابات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کا سعودی عرب کی قیادت کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا۔ اس خیر مقدم کی ایک تاریخی بنیاد ہے۔ سعودی عرب اور ٹرمپ کے درمیان گہرے اور قریبی دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ انہی تعلقات کے حوالے سے ٹرمپ نے ریاض کا تاریخی دورہ کیا۔ حالانکہ سعودی عرب ۔ امریکی تعلقات بنیادی طور پر ان اداروں کے تعلقات ہیں جو ایک " سٹریٹجک پارٹنرشپ" کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ تعلقات صدور کی رخصتی یا ان کی پالیسیوں میں فرق سے متاثر نہیں ہوتے ہیں۔سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تاریخی فتح کے باوجود ریاض نے بیانات بھیجے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات تاریخی اداروں کے تعلقات ہیں۔ اس نے تمام امریکی انتظامیہ کے سربراہان، چاہے ریپبلکن ہوں یا ڈیموکریٹس، اب سب کی موجودگی میں امریکہ کے ساتھ کے تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے حال ہی میں دارالحکومت ریاض میں ہونے والی فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو کانفرنس میں اس بات پر زور دیا کہ مملکت امریکہ میں صدر منتخب ہونے والے کسی بھی شخص کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔ سعودی عرب کے لیے امریکی رائے دہندگان کے فیصلے کی اہمیت ہے۔ سعودی عرب امریکی صدارتی امیدواروں کے درمیان کسی کوئی فرق نہیں رکھتا اور کسی کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتا۔دونوں ممالک کے درمیان تعلقات 1931ء سے پہلے کی ٹھوس بنیادوں پر استوار ہیں کیونکہ اس شراکت داری کے عناصر باہمی تعاون اور مشترکہ مفادات ہیں۔ دنیا ان تعلقات کو خطے کی سلامتی اور معیشت کو فروغ دینے کے لیے ایک بنیادی اساس کے طور پر دیکھتی ہے۔ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو بہتر کرنے کی کوششوں میں دونوں ممالک کی سیاسی، سکیورٹی اور اقتصادی حیثیت اور جی 20 میں ان کی رکنیت کی بنیاد پر اہم کردار ادا کیا گیا ہے۔
ٹرمپ کی واپسی ایک فتح ہے
سعودی سیاسی محقق عبداللہ بن بجاد نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کو ’’فتح‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ٹرمپ کی فتح دوسری مرتبہ ایک بڑا واقعہ اور امریکی تاریخ میں ایک غیر معمولی تاریخی واپسی ہے۔ انہوں نے ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ کو بتایا کہ یہ امریکن پارٹی روایتی دائیں بازو کی قدامت پسند ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان ہے جس پر انتہائی لبرل بائیں بازو کا غلبہ تھا۔ .انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب ۔ امریکہ تعلقات کی تاریخ میں اہم سنگ میل سامنے آئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سعودی عرب کو صدارت سنبھالنے کے بعد ان کی پہلی منزل کا انتخاب کرنا، جس سے مملکت کی حیثیت کی اہمیت اور اس کے موثر بین الاقوامی سطح پر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔
تجزیہ نگارعبداللہ بجاد نے ریاض کے ساتھ موجودہ امریکی انتظامیہ کے معاملات کے رجحانات پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا آغاز ریاض کے ساتھ شدید اختلافات سے ہوا اور پھر تاریخ کے دونوں فریقوں کے درمیان سب سے بڑے معاہدوں پر ختم ہوا۔ ان کے بقول صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے تحت آنے والے برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات وسیع تر معاہدے، پالیسیوں میں تبدیلی اور خطے کے اہم مسائل پر سعودی عرب کے ساتھ اتفاق رائے کی حالت میں ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ خاص طور پر خطے میں تنازعات ، غزہ کے بحران کے خاتمے اور اگلے چار سال کے دوران امن کی بحالی کے لیے سعودی عرب کی قیادت کو ٹرمپ سے امیدیں وابستہ ہیں۔مذہبی جماعتوں کے امور کے محقق عبداللہ بن بجاد نے کہا کہ امریکہ کی اگلی صدارتی انتظامیہ اور سعودی عرب کے درمیان اتفاق رائے سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حقیقی معرکہ آرائی بحال ہو جائے گی۔تجزیہ نگار منیف عماش الحربی کا کہنا ہے کہ ریاض - واشنگٹن نے امریکی صدر ٹرمپ کے دور میں گہرائی سے کام کیا اور نتیجہ خیز نتائج حاصل کیے۔ انہوں نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں بات کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدوں کی تکمیل کی توقع کا اظہار کیا۔ دونوں ممالک کے درمیان مشترکہ دفاعی معاہدہ اور پرامن جوہری تعاون جیسے معاہدوں کی توقع کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹرمپ می واپسی سے تہران کےحوالے سے امریکی پالیسی میں مزید سختی کی توقع کی جاتی ہے۔کیونکہ صدر ٹرمپ نے 2015ء میں ایران اور مغربی ممالک کے درمیان طے پانے والے 5+1 معاہدے سے علاحدگی اختیار کرلی تھی۔ اب بھی ایران کا جوہری پروگرام، بیلسٹک میزائل پروگرام اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے ایران کی جانب سے مسلح گروپوں کی معاونت کے حوالے سے ٹرمپ ٹھوس اقدامات کریں گے۔ٹرمپ کی واپسی سے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ابراہیمی معاہدوں کے دائرے کو وسعت دینے کی ان کی کوشش دوبارہ شروع ہوسکتی ہیں۔ توقع ہے کہ وہ سعودی امن فارمولے کو قبول کر لیں گے، جس میں چار جون 1967ء کی سرحدوں پر فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے۔ اس فلسطینی ریاست میں مشرقی بیت المقدس کو اس کے دارالحکومت کا درجہ حاصل ہوگا۔ اس کے علاوہ ریاض، تل ابیب کے درمیان بھی امن معاہدہ ہوسکتا ہے۔