پاکستان اور خطے کی سیاست__ بین الاقوامی سازشوں کی لپیٹ میں

انگریز انڈیا پاکستان کی تقسیم کے بعد دیگرپے در پے شکستوں سے نڈھال تھا اور 95فیصد کالونیاں اس کی دسترس سے رہائی پا چکی تھیں ۔ روس، چین، فرانس بین الاقوامی سیاست میں اپنے اپنے فلسفے کے ساتھ قدم براجمان کر چکے تھے۔ کوریا اور چین نے پاکستان بننے کے بعد آزادی حاصل کی اور ایک مملکت کے طور پر نقشے پر ابھرے تو ان کی ترقی کی رفتار کو چھونا بھی چیلنج بن گیا تھا۔ ان حالات میں پاکستان اندرونی خلفشار بھارت سے جنگوں سے نڈھال ہو کر ترقی جیسے خواب سے دور ہوتا چلا گیا۔ امریکہ خطے پر اپنی دسترس چاہتا تھا یہی وجہ ہے کہ 1965ء کی جنگ کی صورت میں پاکستان پر ایک معاشی اور سرحدی جنگ مسلط کر دی گئی پاکستان کی غیرجمہوری قوتوں نے اس دور کو سمجھنے کی بجائے اپنے القابات پر زیادہ توجہ دی اور فیلڈ مارشل جیسے اعزازات کو آئین پاکستان پر فوقیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ 1965کی جنگ جو کہ پاکستان جزوی طور پر ہی سہی مگر مذاکرات کی میز پر فاتح کی حیثیت سے بیٹھا تھا مگر تاشقند میں روس کے زیر میزبانی ان مذاکرات میں جب پاکستان مذاکرات کی میز سے اٹھا تو وہ یہ جنگ ہار چکا تھا اس وقت ایک مردمجاہد نے قوم کو اصل صورت احوال کا بتانے کا اعلان کیا ایوب خان کی کابینہ سے فارغ ہوئے اور اس نوزائیدہ قوم اور مملکت کو امیدوں سے روشناس کروایا۔ نوجوان بھٹو جو اس وقت تک قومی سطح کے مسائل سمجھ چکے تھے ایوب کابینہ سے رہائی کے بعد اپنے اس وقت کے دوست جناب مجید نظامی صاحب سے بھی ملے اور انہیں اپنے مستقبل کے ایجنڈے سے بریف کیا پھر جناب مجید نظامی صاحب نے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے لاہور میں YMCA ہال میں ایک جلسے کا اہتمام کیا، کھچا کھچ بھرے اس کامیاب جلسہ سے لاہور میں بھٹو کو آنے والے دنوں میں پذیرائی ملی اور بھٹو کو لاہور میں جانا جانے لگا۔ اس تاریخی جلسہ کے خالق جناب مجید نظامی صاحب اور بھٹو کی تصاویر آج بھی حمید نظامی ہال نوائے وقت اخبار کے ہال اور لائبریری میں موجود ہیں۔1971ء میں ہمارے حکمرانوں کی ماضی میں کی گئی کرتوتوں کی بدولت ایک ایسی جنگ چھیڑ دی گئی جس کا انجام اس ملک عظیم کے دو لخت ہونے کی صورت میں ہوا اور ہمارے اتحادی امریکہ کے وہ بحری بیڑے آج تک خلیج بنگال کے ساحلوں تک نہیں پہنچ پائے جن کے زعم میں ہم نے اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کو للکارا تھا۔ بھارت جس نے آزادی کے بعدلینڈ رفارمزاور جمہوریت کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور وہ عوام کو جاگیرداری کی لعنت سے نجات دلانے میں کامیاب ہوا اور جمہوریت کا پودا بھارت میں پلنے بڑھنے لگا اور وہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک کہلانے لگا جبکہ 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو شہید نے جاگیرداروں کو شکست دی تو یہ شکست دراصل اس خطے میں سامراجی اثرات کی شکست تھی جس کی پاداش میں پاکستان کو دو لخت کر دیا گیا اور جب ذوالفقار علی بھٹو نے ٹوٹے پھوٹے پاکستان کی بھاگ دوڑ سنبھالی تو اسے سب سے پہلے 73ء کا ایک متفقہ آئین دیا اور پھر 74ء میں پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کرکے سامراج کے سینے پر مونگ دل دیئے۔ جس کو بین الاقوامی برادری میں کبھی اسلامی بنک اور کبھی اسلامی بم کے نام سے پکارا گیا۔پاکستان نے اپنی داخلی اور خارجی سیاست کا ایک تقریباً نیا اندازشروع کیا اور چین اور روس سمیت اسلامی ممالک کے بلاک کا تصور پیش کیا، یہ دراصل ان قوتوں کو کب گواراہ تھا جو اس ملک کو عوام کو ہمیشہ محکوم دیکھتے چلی آ رہی تھیں۔ جنہوں نے ڈیڑھ سو سال تک اس سونے کی چڑیا کے سونے کے انڈے کھائے تھے ایسی ترقی ایسی خواہش کا ہونا ہی ان کی نظر میں ایک جرم عظیم تھا اور اور وہ امریکہ جو ہندوستان کے ساتھ جنگ میں ہمارا اتحادی ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتا تھا جس کے وعدوں پر اعتبار نے ہمیں اپنے ایک بازو سے محروم کر دیا تھا اس سامراج کو یہ کب گوارہ تھا کہ وہ اس لولے لنگڑے بچے کھچے پاکستان کی ان بڑی بڑی خواہشوں کو پروان چڑھتے دیکھ سکے ۔وہ ٹیکسلا کا ہیوی کمپلیکس، کراچی کی سٹیل مل ، فرانس سے ایٹمی ریکٹر کے معاہدے، چین سے جنگی جہازوں کی مقامی سطح پر تیاری کے معاہدے اور فرانسی آبدوزوں کی خریداری کے منصوبے دراصل امریکی سامراج کے منہ پر ایسے طمانچے تھے جنہوں نے سامراج کو زخمی سانپ کی مانند ہمارے اوپر حملہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ اور پاکستان اور پاکستان کی قیادت کو سزا دینے کی ٹھان لی ۔ یہی وجہ ہے کہ 74ء کی اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کے بعد ملک کے اندر اچانک ڈالر کی ریل پھیل بڑھ گئی اس ملک کی رجعت پسند قوتوں کو بوریوں میں بھر کر ڈالر دیئے گئے جس سے ملک قومی سطح پر خلفشار کا شکار ہوا اور یہ رجعت پسند قوتیں مذہب کے نام پر اکٹھی ہو گئیں۔ قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو نے الیکشن کے شیڈول سے پہلے الیکشن کا اعلان کر دیا کہ وہ سمجھتے تھے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں او روہ ان استعماری قوتوں کو اور سامراج کے ایجنٹوں کو عوامی طاقت کے بل بوتے پر شکست دے سکتے ہیں۔ سامراج کی نظر میں بھٹو کے جرائم کی فہرست بڑی طویل تھی ۔ اسلامی کانفرنس کا انعقاد ،عربوں کو تیل کی اہمیت کا احساس دلانا ،اسلامی بلاک کی تشکیل ،تیسری دنیا کے قیام کا اعلان ،پاکستان کو آئین دینا،پاکستان کو نیوکلیئر پاکستان کے سفر کی جانب لے کر چلنا اور ایک سرکاری دورے پر امریکہ کے ایئرپورٹ پر جہاز سے اترنے سے انکارچونکہ برابری کی سطح پر استقبال نہ ہوا تھا اور پھر جب ہنری کنجر نے بھٹو کو تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھ کر دھمکی دی کہ وہ اسے عبرت کا نشان بنا دیں گے۔ (جاری ہے)

ای پیپر دی نیشن