پہلے چند تاریخی جھلکیاں۔ اس یقین کامل کے ساتھ کہ مجھے تو اپنے لکھے ہر لفظ کی سچائی کا روز حساب اللہ کو جواب دینا ہے۔ جی مجھے تو دینا ہے اللہ کو یہ بھی جواب کہ کوئی لفظ میں نے کس نیت سے لکھا تھا؟ ہم پاکپتن میں ایک ولیمے پر ایک بار پھر ملے تھے اور ایک سابق ہو چکے بریگیڈئر نے مجھے بتایا تھا کہ نواز شریف یا پاکستان نے ایٹم بم کا دھماکہ دو افراد کے مسلسل زور کی وجہ سے کیا تھا۔ ان دو افراد میں سے ایک مجید نظامی صاحب اور دوسرے گوہر ایوب صاحب بتائے تھے اس بریگیڈئر نے اور یہ بھی بتایا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف جہانگیر کرامت بھی کہتے تھے کہ چلو رہنے دو پھر کبھی کر لیں گے دھماکہ اور وزیراعظم کافی ڈھل مل سے ہوتے تھے۔ اسی بریگیڈئر نے اس سے کئی سال پہلے ماڈل ٹائون لاہور میں شادی کی ہی ایک تقریب میں کہا تھا ’’اگر نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کوئی پنگا لیا تو وہ حکومت پر قبضہ کر لے گا وہ جہانگیر کرامت نہیں‘‘ اس وقت میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان کی طرف سے پرویز مشرف کو چیف آف دی آرمی سٹاف بنائے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ جھلکیاں تو اور بھی بہت ہیں مگر پھر دل تو کبھی بوقت ضرورت چاہتا ہے لکھدیں سب کچھ کتابی صورت میں پھر خیال آتا ہے کہ بہت سے ’’بت‘‘ ٹوٹ جائیں گے کسی کے بھی پلے کچھ نہیں رہے گا۔ چند سال پہلے میں نے لکھنا شروع بھی کیا تھا پھر دنیا داری چھوڑ چھاڑکر قرآن پڑھنے سمجھنے اور جو سمجھ آئے لکھنے میں لگ گیا تھا اللہ کے کرم سے ماہ رمضان میں ترجمہ اور نوٹس کے ساتھ اکیس پارے مکمل ہو گئے تھے دعا کریں اللہ کرم کرے ہمت دے اور رہنمائی فرمائے۔ ہاں یہ تو آپ نے پڑھ ہی لیاہو گا کہ وفاقی کابینہ نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کی منظوری دے دی ہے اس معاہدے کے تحت افغانستان سے مال واہگہ کے راستے بھارت جایا کرے گا یہ بھی آپ کو یاد ہی ہو گا کہ اس ٹرانزٹ ٹریڈ پر اتفاق کے وقت امریکہ کی وزیر خارجہ بھی اسی اجلاس میں موجود تھی جس میں اسلام آباد میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اتفاق پر ہنیری نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی حکومت کی مثبت پالیسی کی کامیابی بتایا تھا۔ اب ایک اور جھلکی۔جن دنوں سوات اور مالاکنڈ میں آپریشن جاری تھا انہی دنوں سری لنکا کے ایک انگریزی اخبار نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی اور بتایا تھا کہ بھارتی ایجنسی را اور امریکی ایجنسی سی آئی اے ایک مشترکہ آپریشن کے ذریعے افغانستان سے ہیروئن بھارت لے جاتی ہیں بھارت سے آگے ایک نیٹ ورک وہ ہیروئن ساری دنیا میں ضرورت مندوں کو فراہم کر دیتا ہے اور اس مشترکہ ٹرانزٹ اور ٹریڈ سے حاصل ہونے والا منافع را اور سی آئی اے پاکستان میں اپنے دہشت گرد لوگوں کو فراہم کرتے ہیں چونکہ امریکی حکومت کی طرف سے مختص رقم پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کے لئے رقم را کے ساتھ مل کر افغانستان میں تیار ہونے والی ہیروئن سے پوری کر رہا ہے۔ اس جھلکی کی تفصیل بھی ہم نے محفوظ رکھی ہوئی ہے یہ بھی آپ کو یاد ہی ہو گا کہ افغانستان کے لئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندہ مسٹر ہالبروک نے ڈیڑھ دو ماہ ہی پہلے اپنے ملک کے لوگوں کو بتایا اور سمجھایا تھا کہ امریکہ اور نیٹو کی فوجوں کے زیر قبضہ افغانستان میں ہیروئن کی پیداوار بڑھتی ہی کیوں جا رہی ہے۔ مسٹر ہالبروک نے کہا تھا کہ ’’ہم افغانستان میں ہیروئن کا کاروبار کرنے والوں اور پوست چرس وغیرہ پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے تاکہ وہ ناراض نہ ہو جائیں‘‘ یعنی را اور سی آئی اے کا کاروبار متاثر نہ ہو۔ جس تحقیقی اخباری رپورٹ کا ہم نے ذکر کیا ہے اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ سی آئی اے اور را کو افغانستان سے ہیروئن بھارت پہنچانے میں بڑی محنت کرنا پڑ رہی ہے کیونکہ وہ ہیروئن دشوار گزار پہاڑی راستوں سے بھارت لے جائی جا رہی ہے۔ تو کیا اس ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے سے سی آئی اے اور را کی اس ٹریڈ میں آسانیاں اور وسعتیں پیدا نہیں ہو جائیں گی؟ سوچیں تو؟ افغانستان سے بھارت مال لے جانے والے ٹرکوں اور کنٹینروں میں کیا بھرا ہو گا اس کا جائزہ تو آپ لے نہیں سکیں گے۔ لے سکتے ہیں نیٹو کنٹینروں میں بھرے سارے مال کا ہم جائزہ؟ بھارت سے زمینی یا پاکستان کے راستے سے تو مال افغانستان نہیں جائے گا مگر افغانستان سے را اور سی آئی اے کا مال دہشت گردی۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ امریکہ کی وزیر خارجہ کے ترجمان کے اس بیان کے اگلے ہی روز این آر او شاہ کے حکم سے گیلانی کو اس معاہدے کی منظوری کی کیا مجبوری درپیش تھی؟ اس معاہدے پر جب اس ہنیری کلنٹن نے دستخط کروائے تھے تو عوامی ردعمل کے جواب میں کیا فرمایا کرتے تھے اس شاہی کے دست و بازو کہ یہ تو صرف کاغذی کارروائی ہے۔ کیا کوئی اس بارے میں وہ سارے بیانات و فرمودات اکٹھے کرکے کسی کی غیرت کی خواب گاہ کے بند دروازے پر دستک دینے کی سعادت حاصل کرے گا؟ خادم اعلیٰ پنجاب کے پاس وسائل تو بہت ہیں ان کے باصلاحیت خادم بھی بے حد و حساب ہیں۔ کس حکمران کے ایسے اعلیٰ خادم نہیں ہوتے؟ ایسے خادم جن کی مائوں نے انہیں جنا ہی حکمرانوں کی خدمات کی تشہیر کے لئے ہوتا ہے دہشت گردی کی جنگ تو پھیلانے کا حکم ہے اس صورت میں ان ٹرالروں اور کنٹینروں کی وجہ سے امن و امان کا مسئلہ کس کے لئے مزید سنگین ہو جائے گا؟ غیرت ویرت نہ سہی خدمت اعلیٰ کی راہ میں مشکلات ہی کو دیکھیں اور وہ جو ایک زرخور اور زرزور پارلیمنٹ ہے وہ دکھائے گی کسی غیرت کی کوئی جھلکی؟