ذہنی پسماندہ بچوں کا اصلاحی مر کز اور ہماری ذمہ داریاں

Oct 08, 2012

نذرالاسلام خورشید

قائداعظم محمد علی جناحؒ نے برعظیم میں ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کی جدوجہد کرتے ہوئے اس بات کا تصور بھی دیا تھا کہ آزاد وطن میں ایک ایسی نئی نسل موجود ہو جو نظریہ¿ پاکستان کے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کی خاطرقوم کے معماروں کےلئے مدد گار ثابت ہو اور مستقبل میں یہی نئی نسل وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی کا فریضہ سنبھال لے۔ بابائے قوم نے اسی لئے فرمایا تھا کہ ”کسی بھی قوم کی ترقی و خوشحالی کا دارومدار اس کے بچوں کی جسمانی اور ذہنی نشوونما، اعلیٰ تربیت اور پاکیزہ کردار و اخلاق پر ہوتا ہے اور دنیا میں صرف انہی اقوام نے سرخروئی حاصل کی جن کے بچے نیک عادات و خصائل اور تعمیری صلاحیتوں کے مالک تھے“۔ تاہم ہمارے ہاں المیہ یہ تھا کہ آزاد ملک میں سانس لینے والی نئی نسل کو صحت، تعلیم اور ایک تندرست و توانا قوم کی تشکیل کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کےلئے ضروری وسائل کی محرومی کا مسئلہ درپیش رہا اور آزادی کے65 سال بعد آج بھی یہی مسئلہ خاطر خواہ حد تک نمٹایا نہیں جا سکا لیکن ہماری خوش نصیبی ہے کہ وطن عزیز میں زیادہ نہیں تو کچھ نہ کچھ تعداد میں نیک اور خداترس اور انسان دوست اصحاب بھی موجود ہیں جو اپنی محنت اور لگن سے اور محدود وسائل کے باوجود بچوں کو صحت، تعلیم کی سہولتیں کی فراہمی اور ان کی ذہنی صلاحیتوں سے معاشرے کو مستفید کرنے کے لئے بے لوث جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ایسی ہی زریں مثال ان خدا ترس شخصیات کی بھی ہے جنہوں نے اپنا تن، من اور دھن نئی نسل کو صحت مند اور ہر لحاظ سے توانا بنانے کےلئے اپنے محدود وسائل کو کار فرما لاتے ہوئے فلاحی ادارے بنا رکھے ہیں جہاں بچوں اور خصوصاً جسمانی اور ذہنی اعتبار سے کمزور بچوں کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک ادارہ لاہور کے علاقے جوہر ٹاﺅن میں سپیشل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ سنٹر کے نام سے سرگرم عمل ہے جس کا انتظام چلانے کےلئے ذہنی و جذباتی معذور اطفال کی اصلاح کی سوشل ویلفیئر سوسائٹی کام کر رہی ہے۔ اس سوسائٹی کی روح رواں تو ملک کی ذہنی امراض اور بچوں کی نفسیات کی ماہر شخصیت پروفیسر ڈاکٹر، خالدہ ترین ہیں جو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں متعلقہ شعبے کی چیئرمین رہ چکی ہیں اور انہیں پروفیسر ایمریٹس کا بھی اعزاز حاصل ہے وہ اس عظیم فلاحی ادارے کی پراجیکٹ ڈائریکٹر بھی ہیں جبکہ رفیقان کار میں پرنسپل محترمہ زرینہ فرخ اور کریئٹو ڈیزائنر سلمیٰ ناہید صاحبہ کے علاوہ دیگر عہدیدار بھی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ نامور سائیکیاٹرسٹ اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے شعبہ نفسیاتی امراض کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر اعجاز اے ترین اور چند دیگرمخیر اصحاب بھی اس نیک کام میں ان کے شریک کار ہیں۔
وطن عزیز کی نئی نسل کو باصلاحیت اور قوم کےلئے مفید شہری بنانے میں مصروف اس ادارے کا نظم و نسق چلانے والی سوسائٹی کے بنیادی مقاصد کی تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ بچے کی ذہنی تربیت ، اصلاح اور دماغی استعداد کے مطابق خصوصی تعلیم کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ذہنی اور جذباتی لحاظ سے پسماندہ بچوں کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کےلئے ایسی تربیت دی جا رہی ہے جس کے ذریعے نہ صرف تفریح و تعلیم کی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے بلکہ کھیل کود کے بھی صحت مند مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ کمزور ذہن کے بچوں کو ایسے کاموں کی جانب مائل کیا جا رہا ہے جن کے ذریعے انہیں نہ صرف معاشرے میں بوجھ نہ سمجھا جائے بلکہ مستقبل میں کار آمد انسان کی حیثیت دلائی جا سکے۔
سپیشل ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ سنٹر کا خوبصورت اور پرکشش کمپلیکس جوہر ٹاﺅن میں چھ کنال کی جگہ پر قائم ہے جہاں کمزور ذہن کے بچوں کو نہ صرف تعلیم، علاج اور نفسیاتی اصلاح کے حوالے سے ضروری میڈیکل سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں بلکہ وقفے کے دوران کھانے پینے کی تواضع کے انتظامات بھی موجود ہیں۔ اس وقت ادارے میں تقریباً 500 بچے داخل ہیں جن میں سے نصف تعداد ایسے کمسن بچوں کی ہے جو جسمانی و ذہنی لحاظ سے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں لیکن انہیں تندرست بچوں کے ساتھ اس طریقے سے مل بیٹھ کر پڑھنے لکھنے اور کھیل کود کے مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں کہ دونوں اقسام کے بچوں میں کوئی فرق محسوس نہیں ہونے دیا اس ادارے کا قیام تو تین دہائیاں قبل عمل میں لایا گیا تھا لیکن 1990ءمیں موجودہ جگہ پر عمارات کی تعمیر کے بعد سے اس مرکز میں گویا جان سی پڑ گئی اور مختلف شعبے دیکھنے کے لئے آنے والے حیران ہوتے ہیں کہ ذہنی اور جسمانی معذور بچوں کو پڑھنے لکھنے اور خصوصی علاج کی سہولتوں کی دستیابی کے سلسلے میں کیسا خوشگوار ماحول مہیا ہے۔ اس ادارے کے تمام تر اخراجات عطیات اور صدقات کے ذریعے سے وصول شدہ رقوم سے اٹھائے جاتے ہیں تاہم زیادہ تر رقوم بعض مستقل عطیات دہندگان کی جانب سے وصول ہوتی ہےں۔ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ مالی استطاعت رکھنے والے افراد اس قسم کے فلاحی مراکز کو بڑھ چڑھ کر مالی امداد دیں تاکہ ادارے کو چلانے والی شخصیات کو بھی کمپلیکس کی۔ توسیع و ترقی کا کام جاری رکھنے میں مدد مل سکے۔

مزیدخبریں