سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بلوچستان بدامنی کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بلوچستان کا معاملہ سب سے اہم مسئلہ ہے ۔ سردار اختر مینگل سمیت بہت سارے معزز لوگ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جسکا مطلب ہے کہ انہیں سپریم کورٹ پر اعتماد ہے لیکن حکومت اور انتظامیہ بہتری کا کوئی عزم اور جذبہ نہیں رکھتی۔ چیف جسٹس نے بدامنی اور لا پتہ افراد کے حوالے سے حکومتی رپورٹ ننانوے فیصد جھوٹ قرار دے دی۔ چیف جسٹس نے پولیس حکام سے استفسار کیا کہ عدالتی حکم پرکتنے پولیس افسران بلوچستان آئے، جس پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن نے بتایا کہ تیس پولیس افسران آئے۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ انہیں ڈی پی او لگائیں اور ان کی تعیناتی کی رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔ اسپیکر بلوچستان اسملبی اسلم بھوتانی کا کہنا تھا کہ وہ سپریم کورٹ کے احترام میں پیش ہوئے ہیں، بلوچستان کے مسئلہ کے حوالے سے کوئی بھی خوش نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمار کس دیئے کہ این ایف سی ایوارڈ میں بلوچستان کو سب سے زیادہ حصہ ملا، تاہم صوبے میں صحت اور پانی کی سہولیات میسرنہیں،فنڈز اگرصوبے پرخرچ ہوتے تو امن وامان کی حالت اتنی خراب نہ ہوتی۔ دوران سماعت بلوچستان سے لاپتہ افراد کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئر مین نصراللہ بلوچ نے عدالت کو بتایا کہ انکی تنظیم کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں لیکن اب انہیں حکومتی اداروں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔عدالت کے معاون وکیل راجہ سلمان نے لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے آئین کی شقوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی نشان دہی کی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت ہو،آسمان گر پڑے یا پہاڑ ٹوٹے آئین کے مطابق چلیں گے،اگر حکومت آئین پر عمل نہیں کریگی تو پھر ہم حکم جاری کریں گے۔ عدالت نے ڈیرہ بگٹی سے لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کیلئے حکومت کو ایک ہفتے میں پلان پیش کرنے کا حکم دیا ۔دوران سماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی بھی درخواست کی فریق بن گئی ۔ پارٹی رہنما عبد الرحیم نے بتایا کہ جہاں صوبے میں آئین پامال ہورہا ہے وہاں پشتونوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ عدالت نے سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی۔
بلوچستان بدامنی کیس: آسمان گرے یا پہاڑ ٹوٹے، آئین کے مطابق چلیں گے۔ این ایف سی ایوارڈ سے ملنے والی رقم صوبے پرخرچ ہوتی توحالات اتنے خراب نہ ہوتے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری
Oct 08, 2012 | 19:35