الیکٹرنک میڈیا‘ عوام اور دانشور

Oct 08, 2013

مجید غنی

دور جدید میں میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ الیکٹرنک اور پرنٹ میڈیا ہی آج کے معاشرے میں خبر رسانی کا سب سے موثر ذریعہ الیکٹرانک میڈیا میں اگر ٹیلیویژن کی بات کی جائے ایک وقت تھا جب صرف ایک ٹی وی چینل تھا اور اس پر بھی حکومت وقت کا مکمل کنٹرول ہوتا تھا۔
 اسی طرح اخبارات کو بھی سنسر شپ کے تکلیف دہ اور غیر جمہوری روئیے سے گزرنا پڑتا تھا لیکن ایک طویل عرصہ پر محیط صحافی برادری کی جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے بعد اخبارات کو آزادی حاصل ہوئی وہ عوام کو صحیح خبریں پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان کی رہنمائی میں بھی مصروف ہیں۔ اسی طرح سرکاری ٹی وی کے بعد 1990ءمیں ایک پرائیویٹ چینل کی آمد اور بعد ازاں مزید کئی ٹی وی چیلنز آنے سے بہت زیادہ بہتری آئی چنانچہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا ریاست کے چوتھے ستون کا درجہ اختیار کر گیا ہے اور اسی وجہ سے آج لوگ ملکی اور بین الاقوامی حالات سے جس قدر با خبر ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔
مختلف ٹیلیوژن چیلنوں پر حالات حاضرہ کی رپورٹنگ کے دوران پہلے خبر دینے کی دوڑ میں بعض چینل خبر کو اس انداز میں نشر کر دیتے جو حقیقت کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات متاثرین اور ناظرین دونوں کے لئے ذہنی تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ کئی دفعہ میں اپنی ہی دی ہوئی خبر کو تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ سب سے بہتر بات یہ ہے کہ خبر کی اچھی طرح تصدیق کر کے اسے نشر کیا جائے۔ ٹاک شوز کے میزبان حضرات کی بڑی اکثریت تعلیم یافتہ اور بہت باخبر افراد پر مشتمل ہے۔ عوام تک سچائی پہنچنے کے لئے ہر فرد کا موقف جاننا اور میزبان کا مکمل طور پر غیر جانبدار ہونا بہت ضروری ہے۔
مذہبی پروگراموں کے حوالے سے بات کی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ چند ایک چیلنز سے ایسے پروگرام نشر کئے جا رہے ہیں جن سے دینی معاملات کے سلسلے میں عوام کو راہنمائی کم اور کنفیوژن زیادہ مل رہا ہے اور کوشش کی جانا چاہئے کہ صرف جید علماءکرام کو ہی ایسے پروگراموں میں مدعو کیا جائے۔
ایک اور اہم مسئلہ معاشرتی اقدار کی پاسداری سے متعلق ہے۔ غیر ملکی چینلز کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی نام نہاد آزاد و خیالی کے نام پر ایسے پروگرام نشر کئے جاتے ہیں جن میں خواتین کو نامناسب لباس میں دکھایا جاتا ہے۔ اور بعض اوقات پروگرام کا موضوع اور اس میں ادا ہونے والے الفاظ بھی اخلاق سے گرے ہوتے ہیں۔ یہ بات ٹی وی کے ارباب اختیار کے علم میں بھی ہے اور اکثر اوقات اس حوالے سے مضامین اخبارات میں چھپتے بھی رہتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں اس طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ نوجوان اورکچی عمر کے لوگوں کے لئے ایسے پروگرام خطرناک ہیں کیونکہ ان سے انہیں بے راہ روی کی ترغیب ملتی ہے۔
میں انتہائی معذرت سے عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں غیر ملکی چیلنز کی نقالی کا رجحان بہت شدت اختیار کر گیا ہے۔
افسوس کا مقام ہے اس دور میں جب صرف ایک ٹی وی چینل ہوتا تھا تفریحی پروگراموں خصوصاً ڈراموں کا معیار انتہائی اعلیٰ تھا۔ ہمارے پروگرام گھر کے تمام افراد ایک جگہ بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے لیکن آج نقالی نے ہمارایہ حال کر دیا ہے کہ ہم ان پروگراموں اورڈراموں کی نقل کررہے ہیں جن میں گھریلو سازشوں‘ قیمتی کپڑوں کی نمائش اور بعض اوقات اخلاق سے گرے ہوئے ڈائیلاگ سننے کو ملتے ہیں۔ ایک اور توجہ طلب مسئلہ میڈیا پر بولی جانے والی زبان کا ہے۔ ٹی وی کے اکاﺅنسر اور پروگرام پیش کرنے والے ایسی عجیب و غریب زبان بولتے ہیں جو نہ اردو وہتی ہے نہ انگریزی اور نہ ہی کوئی علاقائی زبان بلکہ ان سب کو ملا کر اور غیر ملکی چیلنز کے لوگوں کے انداز کندھے اور ہاتھ ہلا کر ایک مصنوعی زبان بولی جاتی ہے جس کا ہمارے معاشرے سے کوئی تعلق نہیں اردو زبان کے الفاظ کوبگاڑ کر ہمسایہ ملک کے ٹی وی چینلز پر بولی جانے والی زبان اختیار کی جا رہی ہے۔ دکھ ہوتا ہے۔ دانشوروں کو یہ سوچنا چاہئے کہ معاشرتی اقدار کی نفی کرنیوالے پروگرام اور غلط لہجے‘ تلفظ اور ٹوٹے پھوٹے فقروں والی زبان کے بُرے اثرات بڑھ رہے ہیں۔ نئی نسل کو اپنے دانشوروں کی طرف سے خصوصاً رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے اس طبقے کو اپنے معاشی مفادات سے بہت آگے بڑھنا ہو گا اور غلط عمل کی نشاندھی کرنا ہو گی ورنہ ان کی ناموری کسی کام کی نہیں ہو گی۔ الیکٹرانک میڈیا کے ارباب اختیار سے بھی گزار ہے کہ وہ اوپر بیان کردہ معاملات کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ اگر پروگراموں کا معیار اچھا ہو گا تو عوام اسے لازماً پسند کریں گے کیونکہ اس کےلئے کسی قسم کی تضع وبناوٹ اور نقالی کی ضرورت نہیں ہو گی۔

مزیدخبریں