بلوچستان کے سلگتے ہوئے مسائل اور جامعہ پنجاب کا کردار

Oct 08, 2013

ڈاکٹر بلال اسلم صوفی

کافی عرصہ پہلے سے یہ باتیں زبان زد عام ہیں کہ بلوچستان میں پنجاب کیخلاف اور پنجابیوں کیخلاف نفرت عام لوگوں کے ذہنوں میں پل رہی ہے اور راقم الحروف کو اس کا ذاتی طور پر اتفاق یوں ہوا کہ ایف ایس سی میں فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے کے باوجود یہاں کے میڈیکل کالجوں میں داخلہ نہ ملا تو خود کو پاکستانی تصور کرتے ہیں۔ بلوچستان چلا گیا اور بولان میڈیکل کالج میں داخلوں کے موقع پر یہ منظر دیکھا کہ سیکنڈ اور تھرڈ ڈویژنز کو بھی داخلہ مل رہا تھا مگر پنجابیوں کیلئے فرسٹ ڈویژن حاصل کرنے کے باوجود کوئی سیٹ مختص نہیں تھی جبکہ آج اگر جامعہ پنجاب ہی کی بات کی جائے اور اسکے رئیس الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران کی بات کی جائے تو انہوں نے وسیع القلبی اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار نظر آتے ہوئے اپنی جامعہ کے ہر ایک شعبہ میں بلوچستان کے طلباءو طالبات کیلئے دو نشستیں مختص کر دی ہیں اور یہ تمام طلباءو طالبات یہاں پنجاب کے دل لاہور اور دنیا کی عظیم درسگاہ جامعہ پنجاب میں مفت تعلیم حاصل کریں گے۔ اکیڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن کے زیراہتمام بلوچستان کے سابق نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی کے لیکچر کے موقع پر مجھے اس اہم پیش رفت معلوم ہوا تو احساس ہوا کہ اگر تمام لوگوں کا دل ڈاکٹر مجاہد کامران کی طرح وسیع ہو اور دماغ پاکستان کا سوچے تو کوئی وجہ نہیں کہ بلوچستان اور پنجاب میں نفرتیں ختم اور محبتیں جنم لینا شروع نہ ہو جائیں۔ آواران میں شدید زلزلہ سے ہونیوالے نقصانات کو پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں محمد شہباز شریف اور پورے پنجاب نے اپنے دل پر لیا اور یہاں سے امدادی قافلے روانہ کرنے شروع کئے جبکہ بلوچستان کی نومنتخب حکومت نے فوج کو بھی امدادی کارروائیوں کیلئے طلب کیا مگر یکایک ان امدادی قافلوں پر حملے اور انہیں لوٹنے کا سلسلہ شروع کروا دیا گیا جس پر میجر جنرل عاصم باجوہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے حملہ کرنیوالوں کو دہشت گرد تصور کر کے انکے خلاف کارروائی کا بھی اعلان کیا ہے۔ جامعہ پنجاب میں ہونیوالے اس سیمینار میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ حکومت کوNATO ہو یا بھارتی عناصر ہوں ایک واضح پیغام دینا چاہئے کہ ہم تمہاری بدمعاشی کو سمجھتے ہیں۔ اگر اسے فوری بند نہیں کرتے تو کارروائی ہوگی۔ جوگیزئی صاحب نے اپنے مختصر دور کی کئی مثالوں سے واضح کیا کہ انداز حکمرانی کے فرق کی وجہ سے ہی تمام حالات درست ہو سکتے ہیں۔ زرداری دور میں اور اس سے پہلے بھی بلوچستان کے لئے وفاقی حکومت کی طرف سے اربوں روپے کے پیکج اسلام آباد سے بھیجے گئے تو 58 وزیروں کی فوج ظفر موج میں سے جس کے ہاتھ جو آیا وہ لے اڑا اور لوگ جو پاکستان کے ساتھ دل سے جڑے ہوئے ہیں وہ پھر محرومیاں سمیٹے ہوئے نعرہ پاکستان لگاتے رہ گئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا کہ آپس کے یہ دورے بات چیت کے مواقع اگر ہر سطح پر شروع ہو جائیں تو یقیناً نفرتوں میں کمی آئے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ NATO کا کردار اس وقت کسی بھی طرح اچھا نہیں اور جو کچھ انہوں نے اٹلی اور اسپین میں کیا وہ اب پاکستان میں کر رہے ہیں۔ ہماری حکومت اور فوج کی باڈی لینگویج واضح ہونی چاہئے انہوں نے کہا کہ اگر صوبہ امن و امان قائم نہ کر سکے تو وفاقی حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا کہ ان کی ایسے سیمینارز کے ذریعے اور بلوچ طلبا و طالبات کو یہاں تعلیم دیتے ہوئے ایک ہی خواہش ہے کہ جو امیج پنجاب کے لوگوں کا بلوچیوں کے دل میں ہے اسے تبدیل کیا جائے اور حکومت اپنی جگہ یہ کام کرے ہم اداروں کا بھی یہ فرض ہے کہ اس محبت کا عملی مظاہرہ اور نمونہ پیش کریں۔

مزیدخبریں