اسلام آباد (این این آئی + آئی این پی + آن لائن) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سلمان فاروقی کی بطور وفاقی محتسب تقرری کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ بادی النظر میں ادارہ جاتی اصلاحات کا آرڈیننس کسی خاص فرد کو فائدہ پہنچانے کےلئے لایا گیا تھا، کسی کو سلمان فاروقی کی تقرری کا علم ہوا نہ ہی کوئی پریس ریلیز جاری کی گئی، عدالت کو ہر چیز کی سمجھ آرہی ہے جب آرڈیننس بنتا ہے تو کچھ قانونی تقاضے ہوتے ہیں، اسمبلی کا سیشن نہ چل رہا ہو تو آرڈیننس میں ذکر جاتا ہے، کیسے ہو سکتا ہے پارلیمنٹ ایک قانون بناتی ہے اگلے روز ایک آرڈیننس کے ذریعے ایکٹ کو منسوخ کر دیا جاتا ہے، اس حوالے سے عدالت کو نظرثانی کرنا پڑیگی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ سید عادل گیلانی کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی، سماعت شروع ہوئی تو سلمان فاروقی کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ ان کے م¶کل پر یہ الزام لگایاگیاکہ ان کی تقرری سپریم کورٹ کے فیصلہ کی خلاف ورزی ہے اس سلسلے میں تین اعتراضات ہیں پہلے اعتراض کے مطابق کوئی سرکاری ملازم محتسب اعلیٰ مقرر نہیں ہو سکتا، دوسرا اعتراض نگران دور میں قائم مقام محتسب اعلیٰ کو مستقل کرنے پر ہے، تیسرا عتراض ہے کہ سلمان فاروقی دوہری شہریت کے حامل ہیں اور یہ تینوں اعتراضات حقیقت پر مبنی نہیں۔ ان کے موکل کے پاس دوہری شہریت نہیں اس طرح ان کا تقرر بھی قانون کے مطابق کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات کا آرڈیننس کسی خاص شخص کو فائدہ پہنچانے کےلئے لایا گیا تھا کیونکہ جب آپ کا م¶کل صدر کے سیکرٹری جنرل کے طور پر کام کر رہا تھا تو اسے قائم مقام وفاقی محتسب کس طرح ٰلگایا گیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ عدالت کو ہر چیز کی سمجھ آرہی ہے جب آرڈیننس بنتا ہے تو اس کے کچھ قانونی تقاضے ہوتے ہیں اس کی ضرورت کا ذکر کیا جاتا ہے آرڈیننس پر لکھا ہوتا ہے کہ اس وقت اسمبلی کا سیشن نہیں چل رہا ہے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ ایک قانون بناتی ہے اور اگلے روز ایک آرڈیننس کے ذریعے اس ایکٹ کو منسوخ کر دیا جاتا ہے، اس حوالہ سے تو عدالت کو بھی نظرثانی کرنا پڑے گی۔ عدالت کو پی ایم سیکرٹریٹ کی جانب سے سلمان فاروقی کے تقرر سے متعلق کوئی واضح جواب موصول نہیں ہوا، وہاں سے بھی معاملہ کی تحقیقات کرانے کی بات کی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حتی الوسع کوشش کی گئی کہ کسی کو بھی سلمان فاروقی کی تقرری کا علم نہ ہو پائے، اسی وجہ سے کوئی پریس ریلیز جاری ہوا اور نہ ہی کوئی حلف برداری کی تقریب منعقد کی گئی، جس پر وسیم سجاد نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہ تھی یہ معاملہ اوپن تھا یہی وجہ ہے کہ سینٹ میں اپوزیشن لیڈر اسحاق ڈار نے سلمان فاروقی کو مبارکباد پیش کی تھی، اگر یہ معاملہ اتنا ہی خفیہ رکھا جاتا تو انہیںکس طرح خبر ہو گئی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ شاید وہ غیب کا علم رکھتے ہونگے جو ان کو پتہ چل گیا ہو گا اس سے پہلے بھی متعدد وفاقی محتسب مقرر ہوئے ہیں مگر اتنی جلد بازی میں کسی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہو گا۔ نوٹیفکیشن کے اجرا میں کوشش کی گئی کہ کسی کو بھی اس کا علم نہ ہو، وسیم سجاد نے کہا اگر کسی نے ریکارڈ میں ٹمپرنگ کی ہے تو اس میں ان کے م¶کل کا کیا کوئی قصور نہیں اگر اس حوالے سے جواب درکا رہے تو پرنٹنگ پریس سے پوچھا جائے۔ چےف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ وفاقی محتسب صدر کے سےکرٹری جنرل کا عہدہ نہےں رکھ سکتا جبکہ جسٹس جواد اےس خواجہ نے رےمارکس دئےے کہ اےک شخص دو عہدوں سے انصاف نہےں کر سکتا۔ وسےم سجاد نے م¶قف اختےار کےا کہ سلمان فاروقی کے پاس دوہری شہرےت نہےں، ان کی تقرری کا نوٹیفکےشن نگران حکومت سے پہلے جاری ہوا تھا، اس موقع پر چےف جسٹس نے کہا کہ وفاقی محتسب صدر کے سےکرٹری جنرل کا عہدہ نہےں رکھ سکتا، اس کی قانون مےں کوئی گنجائش نہےں، جسٹس جواد اےس خواجہ نے کہا کہ وفاقی محتسب کی آزادانہ حےثےت ہوتی ہے، نوٹیفکےشن اور دےگر امور بہت مختلف ہےں، اےک شخص دو عہدوں سے انصاف نہےں کر سکتا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب تقرری کیس کی سماعت آج تک کے لئے ملتوی کرتے ہوئے سلمان فاروقی کے وکیل کو 29 مئی 2013ءکے بعد تقرری کے حوالے سے سامنے آنے والی قانونی پیچیدگیوں پر جواب داخل کرانے کی ہدایت کی۔ بنچ نے کہا ہے کہ اگر صدر پارلیمنٹ کے نامنظور کئے جانے والے قوانین کے برخلاف آرڈیننس جاری کر دیں تو پارلیمنٹ کی کیا حیثیت رہ جائے گی۔ بظاہر وفاقی محتسب کے طور پر سلمان فاروقی کی تقرری کے معاملے میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر کام پوشیدہ رکھا گیا، پردہ داری کی کچھ وجہ تو ضرور تھی۔ وفاقی محتسب سلمان فاروقی کی بیوی کے علاج کے لئے تو سرکاری خزانے سے فوراً 25 ہزار ڈالر جاری کر دیئے گئے کیا کسی عام آدمی کے لئے بھی حکومت اسی طرح فراخ دلی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ سلمان فاروقی کے وکیل وسیم سجاد نے دلائل میں کہا کہ سارا کیس 29 مئی 2013ءکے اس لیٹر کی بنیاد پر چل رہا ہے جس میں عادل گیلانی کی جانب سے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سلمان فاروقی کی نگران دور حکومت میں بطور محتسب تقرری غیر آئینی اور خواجہ آصف کیس کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔ وفاقی محتسب کا تقرر یکم مارچ 2013ءمیں صدر کی جانب سے کیا گیا۔ الزامات یہ نہیں کہ حکومتی اہلکار قائم مقام محتسب مقرر نہیں کیا جا سکتا۔ دوہری شہریت کے حوالے سے لگایا جانے والا الزام غلط ہے۔ سلمان فاروقی کی بطور وفاقی محتسب تقرری کا معاملہ نگران دور حکومت سے قبل فائنل ہو چکا تھا۔ 19 نومبر 2012ءکو نگران محتسب کے طور پر صدر کو سمری بھیجی گئی جسے 5 دسمبر 2012ءکو صدر نے منظور کیا، 11-12-12 کو حلف برداری ہوئی اور 12-12-12 کو وفاقی محتسب سلمان فاروقی نے عہدے کا چارج سنبھالا۔ فنانس ڈویژن اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے قبول کیا۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے دستخط کر کے سیکرٹری کابینہ کو نوٹیفکیشن بھیجا۔ سلمان فاروقی کو وفاقی محتسب مقرر کر نے کی سمری وزیراعظم نے ہی صدر کو بھیجی تھی۔ سلمان فاروقی نے اعزازی طور پر سیکرٹری جنرل پاکستان آفس کا چارج اپنے پاس رکھا، جس کی اجازت 13-12-12 کو جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس میں دی گئی تھی۔ عدالت نے کہا کہ محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل صدر کو ہی بھیجی جاتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی وفاقی محتسب بھی ہو اور سیکشن افسر بھی لگ جائے۔ اعزازی بنیاد پر عہدہ سنبھالنے کی آئین میں کیا حیثیت ہے۔ بطور سیکرٹری جنرل انہیں تنخواہ تو ملتی رہی۔ وسیم سجاد نے کہا کہ 28 فروری 2013ءمیں سلمان فاروقی نے بطور سیکرٹری جنرل پاکستان آفس اپنا عہدہ چھوڑ دیا لیکن یکم مارچ 2013ءکو اعزازی طور پر سیکرٹری جنرل آفس کا چارج پھر سنبھال لیا۔ جب سلمان فاروقی کی تقرری ہوئی اس وقت الیکشن پراسس چل رہا تھا۔ عدالت نے کہا کہ صدر کا الیکشن سے کیا تعلق، صدر تو سارے معاملے سے لاتعلق رہتا ہے۔ الیکشن تو نگران حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تمام کام بظاہر انسانی برق رفتاری سے کیا گیا تا کہ کسی کو پتہ نہ لگ جائے کہ وفاقی محتسب کے طور پر سلمان فاروقی کی تقرری کی جا رہی ہے۔ سلمان فاروقی کی حلف برداری کے حوالے سے بھی کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ محتسب کی تقرری کا سارا معاملہ آدھے گھنٹے کے اندر مکمل کر لیا گیا۔ عدالت نے محتسب کے ادارے کے وکیل کی جانب سے بار بار سلمان فاروقی کے وکیل وسیم سجاد کی معاونت کرنے پر انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محتسب کے ادارے کے وکیل کو تو عدالت کی معاونت کرنی چاہئے وہ بظاہر کسی اور کے مفادات کو سامنے رکھ رہے ہیں۔