بے نظیر بھٹو قتل کیس میں شہید بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے امریکہ میں وکیل ، فکسر اور بے نظیر بھٹو کی مفاہمت نامی کتاب کے پروجیکٹ انچارج مار ک سیگل کے ویڈیو لنک بیان کے بعد بے نظیر بھٹو قتل کیس میں بظاہر پھر سے جان پڑ گئی ہے البتہ یہ اَمر ناقابل فہم ہے کہ اگر استغاثہ کا گواہ مارک سیگل اتنا ہی اہم تھا تو سابق صدر زرداری کے پانچ سالہ دور میں اِس گواہ کو مقدمہ کے تفتیشی افسران ، عدلیہ یا پھر ہائی پروفائل اقوام متحدہ انکوائری کمیشن کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا جس کی تشکیل محترمہ بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے مطالبے پر کی گئی تھی اور جس کی توثیق پارلیمنٹ نے کی تھی۔ یہ اَمر بھی باعث حیرت ہے کہ جب اقوام متحدہ کمیشن رپورٹ منظر عام پر آئی تو اہم شواہد پر مبنی یہ رپورٹ مقدمہ کا حصہ بننے کے بجائے صدر زرداری کے حکم پر طاق نسیاں کیوں ہو گئی؟
چنانچہ اب 27 دسمبر 2007 کے المناک واقعہ کے تقریباً آٹھ برس کے بعد مارک سیگل کو اہم گواہ کے طور پر شہادت کےلئے عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہے اگر دیر آید درست آید کے تحت یہ مان لیا جائے کہ مارک سیگل بے نظیر قتل کیس میں اہم گواہ کی حیثیت رکھتے ہیں تو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کےلئے اقوام متحدہ کمیشن انکوائری رپورٹ کو بھی مقدمہ کا حصہ بنایا جانا چاہیے جس میں بے نظیر بھٹو قتل کیس سے متعلقہ بیشتر شواہد کو یک جا کیا گیا ہے ۔ مارک سیگل کا بیان اِس لئے بھی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اِس میں کچھ اور باتوں کے علاوہ پاکستان واپسی پر بے نظیر بھٹو کی جان کو درپیش خطرے کے حوالے سے سابق صدر مشرف کی ایک ٹیلی فون کال کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں سابق صدر نے مبینہ طور پر بے نظیر بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ وہ 2007 کے انتخابات سے قبل پاکستان نہ آئیں کیونکہ اُنکی جان کے تحفظ کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ مارک سیگل کے آنسوﺅں سے لبریز بیان کےمطابق صدر مشرف کی اِس ٹیلی فون کال کے بعد بےنظیر بھٹو بے حد فکر مند تھیں اورکانپ رہی تھیں ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ویڈیو لنک بیان میں مارک سیگل نے یہ ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ محترمہ اِس ٹیلی فون کال کے بعد اپنی جان کے حوالے سے مشرف سے خوفزدہ تھیں البتہ اِس اَمر کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے کہ پاکستان میں لاءاینڈ آرڈر صوبائی حکومتوں کے ہاتھ میں تھا اور اُس وقت سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں بی بی مخالف تھیں۔ البتہ بے نظیر بھٹو کسی خوف سے کانپنے والی خاتون نہیں تھی، مشکل ترین حالات میں بھی اُنکے پایہ استقلال میں کبھی کمزوری نہیں دیکھی گئی اور اِس بات کی تصدیق خود مارک سیگل نے بی بی کی کتاب، مفاہمت ، جو اُن کی المنا ک موت کے بعد شائع ہوئی کے پیش لفظ میں کی ہے " بے نظیر بھٹو جنہیں میں جانتا ہوں، ایک بہادر ترین خاتون اور پیاری دوست تھیں جن کا کوئی متبادل نہیں ہے "
جہاں تک پرویز مشرف کی سیاسی فکر کا تعلق ہے تو سیاست میں اُن کا گزارا گجرات کے چوہدریوں اور پیپلز پارٹی کے زرداریوں سے ہی ممکن ہو سکتا تھا چنانچہ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس اور دیگر اہم امریکی سیاسی شخصیتوں کی خواہشات کے پیش نظر اور بی بی سے دبئی کے محلات میں ملاقاتوں کے باوجود مشرف بی بی کی بین الاقوامی شہرت سے خوفزدہ ہی رہے، چنانچہ وہ چاہتے تھے کہ بی بی دسمبر 2007 کے انتخابات کے بعد پاکستان واپس آئیں اور اور اپنی پارٹی کی قیادت کریں ، اِسی لئے وہ تیسری بار وزیراعظم بننے کی آئینی رکاوٹ دور کرنے کےلئے بی بی کی تجویز سے متفق نہیں ہوئے۔ کیونکہ مفروضات پرگفتگو ہو رہی ہے لہذا، زرداری صاحب کے حوالے سے درج ذیل دلچپ حقائق پر بھی ایک نظر ضرور ڈانی چاہیے ۔
پہلی بات کا تذکرہ تو خود محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب مفاہمت میں کیا ہے کہ جب قید و بند کی افتاد سے تنگ آئے ہوئے زرداری صاحب نے 2002 میں اڈیالہ جیل سے ہائی پروفائل ارباب اختیار کی موجودگی میں بی بی کو ٹیلی فون پر قائل کرنے کی کوشش کی وہ دس برس کےلئے سیاست سے دستبردار ہو جائیں تو حکومت اُن کےخلاف تمام مقدمات سے دستبردار ہو جائیگی اور اُنہیں آزادی کا پروانہ مل جائیگا لیکن بی بی نے اِس تجویز سے اتفاق نہیں کیا اور زرداری صاحب کو مزید کئی برس جیل کی صعوبتیں جھیلنی پڑیںجس کا اظہار خود بذبان زرداری اُس وقت کیا گیا جب 2007 میں بی بی امریکہ سے دبئی واپسی سے قبل امریکی پارلیمنٹ کے ارکان کی جانب سے دئیے گئے ڈنر میں پاکستان واپسی پر اُنکی سیکیورٹی میں دلچسپی لینے پر اِن ارکان پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کر رہی تھیں تو ڈنر ٹیبل پر اُنکے مقابل بیٹھے ہوئے زرداری صاحب نے مداخلت کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا " میں نے آٹھ برس جیل میں گزارے ہیں اوربی بی میری رہائی کےلئے جد و جہد کرتی رہی ہیں، اب جیل جانے کی باری بی بی کی ہے جبکہ میں بی بی کی رہائی کےلئے جنگ کرکے شہرت حاصل کرونگا۔ بہرحال بی بی نے اپنے شوہر کی اِس بے حکمتی پر شائستگی سے جواب دیا ہاں آصف اب میری باری ہے "۔ اِس اَمر کا تذکرہ ران سسکنڈ نے اپنی کتاب کے صفحہ 266 پر بخوبی کیا ہے۔
بی بی پاکستان واپس آئیں تو زرداری صاحب نے اپنے خاص سیکیورٹی گارڈ خالد شہنشاہ کو بی بی کے ذاتی گارڈ کے طور پر مقرر کیا جبکہ رحمن ملک کو بی بی کا سیکیورٹی ایڈوائزر بنا کر بھیجا گیا۔راولپنڈی کے جلسہ عام میں اِسی سیکیورٹی گارڈ کو بی بی کی تقریر ختم ہونے سے قبل گلہ کاٹنے کے حیران کن اشارے کرتے ہوئے دیکھا گیا چنانچہ بعد میں وہ خود بھی کراچی میں نامعلوم قاتلوں کے ہاتھوں قتل ہوا ۔ کیا خالد شہنشاہ ، رحمن ملک اور زرداری صاحب جانتے تھے کہ راولپنڈی جلسے کے بعد بی بی چیپٹر ختم ہوجائیگا، اِسکے بارے میں تحقیق و تفتیش کے بغیر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اندریں حالات، ضرورت اس امر کی ہے کہ صدر مملکت مارک سیگل کے بیان کی روشنی میں اقوام متحدہ انکوائری کمیشن رپورٹ کو بے نظیر بھٹو قتل کیس کا حصہ بنانے کے احکامات جاری کریں ۔