میاں محمد نواز شریف کے یو این اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بغیر کسی خوف و خطر مسئلہ کشمیر پر اظہار خیال کیا اور ساتھ ہی کئی تجاویز بھی دیں۔ پہلا نقطہ جو انہوں نے اٹھایا وہ تھا کہ 2003ءمیں پاکستان اور بھارت میں ایل او سی پر سیز فائر معاہدہ طے پایا تھا۔ بھارت اسکی پابندی نہیں کر رہا۔وزیر اعظم نے کہا کہ سیز فائر معاہدے کی پابندی کی جائے۔ دوسرے سیاچن سے دونوں ملک فوجیں واپس لے جائیں۔ تیسرے کشمیر سے فوجیں واپس بلائی جائیں اور چوتھا پوائنٹ تھا کہ طاقت کا استعمال کیا جائے نہ دھمکی دی جائے۔
ان چاروں تجاویز میں کوئی بھی تجویز غیرمعقول نہیں۔ یہ سب تجاویز یونائیٹڈ نیشن چارٹر کے عین مطابق ہیں لیکن افسوس کہ نہ ہی امریکی صدر نہ ہی یورپین ہیڈ آف دی سٹیٹ یا کسی مسلمان ہیڈ آف سٹیٹ نے وزیراعظم نواز شریف کی حمایت کا اعلان کیا۔ کسی بھی نقطہ کو اٹھانے کیلئے پہلے لازم ہوتا ہے کہ لابی کی جائے جس میں ہم ناکام رہے ہیں۔بھارت مقبوضہ کشمیر میں دہشتگردی اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی کا مرتکب ہورہا ہے، دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت کررہاہے اور ہمسایوں کے ساتھ جنگ و جدل جاری رکھے ہوئے ہے،اسکے باوجود امریکی صدر اوبامانے بھارت کو یو این او کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانے کا بھی وعدہ کیا ہے۔ یورپی ممالک تو امریکہ کا ہی ساتھ دینگے لیکن افسوس کی بات ہے اسلامی بلاک میں سے خلیج کے چند حکمرانوں نے بھی بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانے میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا ہے جو پاکستان کیلئے نئی مشکلات ہیں۔ یمن کی جنگ میں مسلمانوں کو بھی آپس میں لڑایا جا رہا ہے جس کا فائدہ غیرمسلموں کو ہو گا۔ کشمیری قیادت کو جو گلے تھے کہ پاکستان انکی اخلاقی مدد کھل کر نہیں کر رہا وہ شکوے دور ہو گئے ہیں۔ علی گیلانی ،میرواعظ عمر فاروق اور دیگر کشمیری لیڈروں نے پرائم منسٹر کی تقریر کی تعریف کی۔ امریکہ اور یورپ کو تو سانپ سونگھ گیا ہے لیکن ہمارے اس وقت کے اتحادیوں چین اور روس کا بھی ردعمل ابھی تک کھل کر نہیں آیا۔
میاں نواز شریف نے بجا طور پر کہا ہے کہ یو این او کو بڑے اور سرمایہ دار ملکوں پر مشتمل نہیں ہونا چاہئے۔ بھارت میں تو ایک ہندو قوم ہے لیکن 57 ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت اور حکومت ہے، ان میں سے بھی سکیورٹی کونسل کا کوئی مستقل ممبر نہیں جو قابل تشویش ہے۔
میاں صاحب اور مودی صاحب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے تھے کسی بڑی طاقت نے دونوں کی ملاقات کرانے کی کوشش نہیں کی۔ گو دونوں نے دور سے ہاتھ ہلا کر ہیلو ہیلو کی جس کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ یہ میاں نواز شریف یا فارن آفس کی ناکامی تھی۔ جب سے کشمیر کا مسئلہ یو این او میں پیش کیا گیا یہی حالت رہی۔ اوائل میں جب پطرس بخاری پاکستان کے مستقل نمائندے تھے انہوں نے کشمیر مسئلہ پر دھواں دھار تقریر کی لیکن اگلے روز اخباروں میں بھارتی مندوب کی پورا صفحہ تقریر شائع ہوئی اور بخاری صاحب کی تین لائن کی خبر تھی۔ اس پر ایک اخبار کا نمائندہ استعفیٰ دیکر بخاری صاحب سے ملا اور سارا واقعہ سنایا۔ بخاری صاحب نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا؛ عالمی برادری میں پذیرائی اس ملک کی ہوتی ہے جو بڑا ہو۔ اس وقت ہم لوگوں کے پاس ایٹمی طاقت نہیں تھی لیکن اب سب ملک تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت سے ہمارا ایٹمی سسٹم بہتر ہے۔
میاں صاحب نے جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ کہ پاکستان میں بھارت کی دہشت گردی کروانے کے ثبوت یو این میں پیش کرینگے ۔ دوسرے دن بانکی مون کو ملیحہ لودھی نے تحریری ثبوت پیش کر دیئے ۔قبل ازیں میاں نواز شریف نے بانکی مون کو ملاقات کے دوران بھارت کی پاکستان میں دخل اندازی سے متعلق زبانی طورپر آگاہ کیا تھا۔بے چارہ بانکی مون بے اختیار آدمی ہے جس کے پاس کوئی اختیار نہیں، سوائے اسکے کہ وہ سر ہلا کر، آنکھیں مٹکا مٹکا کر ہاں کے ساتھ ہاں کر دے۔
کاش میاں صاحب کی تقریر پر بین الاقوامی ضمیر حرکت میں آتا ۔ چین کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات ہیں، اسے ببانگ دہل کہنا چاہیئے تھا؛ کشمیر سے غاصب بھارت کو نکالو ، کشمیریوں پر ظلم و ستم بند کراﺅ اور انکو اپنی قسمت کا فیصلہ خود اپنی رضا سے کرنے کا حق دیا جائے لیکن صد افسوس کسی ملک نے بھارت کو ہوش دلانے کی کوشش نہیں کی۔ بین الاقوامی ضمیر مردہ ہو چکا ہے لیکن ہسٹری کو ناخدایان دنیا کو نہیں بھولنا چاہئے، اگر لیگ آف نیشن ناانصافیوں کی وجہ سے ختم ہو سکتی ہے تو یو این او کا ختم ہونا بھی ٹھہر گیا ہے۔ اگر انڈونیشیا سے ایسٹ تیمور عیسائی آبادی کو الگ کرنا ہو تو فوراً تعمیل ہو جاتی ہے لیکن پاکستان بھارت کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈا کو مکمل کرنے کیلئے کہا جائے تو بااثر ممالک بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو غیبی طاقت جوش میں آتی ہے، بھارت کو اور اسکے ہمنواﺅں کو قدرت کے قہر سے ڈرنا چاہئے۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹے ہوئے ہیں، آخر شہیدوں کا خون رنگ لائیگا اور اس ظالم بین الاقوامی نظام کو بہا کر لے جائیگا۔ بھارتی میڈیا کھل کر سامنے آیاہے۔ پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کی جا رہی ہے۔ انکی خاتون وزیر خارجہ نے تو میاں نواز شریف کے چاروں پوائنٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے سیاچن گلیشیر، کشمیر سے فوجیں نکالنے کی بات نہیں ہو سکتی صرف دہشت گردی پر بات ہوگی۔
دراصل دنیاکو اور مسلمان ملکوں کوامریکن پینٹاگون کے تقسیم کرانے کے اور طریقے ہیں۔ اس وقت دنیا میں مختلف بلاک تشکیل ہونے کے توقعات ہیں۔ چین، روس، پاکستان، ایران کے ایک بلاک بنانے کے امکانات ہیں۔ امریکہ بھارت کی سرتوڑ کوشش ہے کہ یہ بلاک نہ بن سکے۔ یمن اور سعودی عرب کی کشیدگی بھی اس کڑی کا شاخسانہ ہے۔میاں نواز شریف کے سعودی عرب کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں چنانچہ امریکہ کی کوشش تھی کہ پاکستان کو اس جنگ میں پھنسا دیا جائے، دوسری طرف سے یمنی باغیوں کی مدد کیلئے ایران کو تیار کر کے مسلمان ملکوں میں لڑائی کرا دی جائے لیکن پاکستانی قیادت نے صحیح فیصلہ کیا اور اس جنگ میں شمولیت نہیں کی جو امریکہ بہادر کو پسند نہیں۔ گوادر پورٹ بننے سے مڈل ایسٹ کی پورٹس اور بمبئی کی پورٹس کو بھی فرق پڑیگا اس لئے یواے ای کے فرمانروا جن کے پاکستان سے برادرانہ تعلقات ہیں ان سے بھی کہلوا دیا کہ بھارت کو یو این او کا مستقل ممبر بنانے میں مدد دینگے حالانکہ پاکستان کی دنیا کے نقشہ پر آنے کے بعد سے اب تک اسلامی دنیا سے تعلقات گہرے بنانے کی پالیسی ہے لیکن اس سفید ہاتھی کی ہماری چین کیساتھ دوستی کی وجہ سے ہمارے مسلمان ہمسایوں کو بھی ناراض کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ زوال پذیر ہے، اسکی اکانومی کا گراف نیچے کی طرف آ رہا ہے۔
چین کی اکانومی کا گراف اوپر جا رہا ہے۔ چین کو بھارت کے ذریعہ امریکہ Encircle کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اسکی ہر جائز ناجائز خواہش کی تکمیل کر رہا ہے۔ بھارت نیوکلیر مواد جہاں سے چاہے خرید سکتا ہے۔ بھارت کو سٹرٹیجک پارٹنر بھی بنا چکا ہے۔ اب اسے یو این او کا مستقل ممبر بنانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس صورت میں میاں صاحب کی مدلل تقریر کا اثر امریکہ اور اسکے حواریوں پر کیا ہو گا،یہ ایسے ہی ہے جیسے اندھے کے سامنے بین بجانا۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ کشمیر کاز کوڑے کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا تھا اسکو دوبارہ میاں صاحب نے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دنیامیں میڈیا میں کم از کم وہ مردہ زندہ تو ہوا ہے۔ میرے خیال میں بھارتی مداخلت کے ثبوت بانکی مون سیکرٹری جنرل کو دینے کی بجائے یو این او کی کی تقریر میں انڈکس کے طور پر استعمال کئے جاتے تویہ جنرل اسمبلی کے ریکارڈ ہوتے تاکہ جب کبھی بھارت کو مستقل ممبر بنانے کی کوشش کی جائے تو بھارت کیخلاف ثبوت موجود ہوں۔ بہرحال میاں صاحب کو داد دیتے ہیں کہ انہوں نے دل کھول کر کشمیر کاز کو بین الاقوامی فورم پر پیش کیا....
”منہ سے جو کچھ کہا توکیا ضبط اگر کیا تو کیا
نالے اثر نہ کر سکے آہیں رسا نہ ہو سکیں“