شاطرانہ امریکی حکمتِ عملی اور چین

Oct 08, 2016

رانا زاہد اقبال

امریکی خاموشی سے چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہے ہیں خاص طور پر بحیرہ جنوبی چین کے معاملہ پر ویت نام اور فلپائن سمندری تنازعات کی وجہ سے چین کے خلاف علاقائی اتحاد بنا کر اسے چیلنج کر رہے ہیں جس میں انہیں برونائی، ملائشیا، اور تائیوان کا مکمل تعاون بھی حاصل ہے۔ امریکی صدر بارک ابامہ نے لاؤس میں ایشیائی ممالک کے سربراہانِ مملکت کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین کو بحیرۂ جنوبی چین پر اپنے دعوے سے متعلق عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے پر عمل کرناہو گا ۔ فلپائن کی حکومت بحیرۂ جنوبی چین پر چین کے دعوے کے خلاف مقدمہ بین الاقوامی ثالثی عدالت میں لے گئی تھی۔ تاہم چین نے اس حوالے سے اس ثالثی عدالت کے اختیار کو مسترد کرتے ہوئے اس کے سامنے پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ رواں برس جولائی میں نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں موجود بین الاقوامی ثالثی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اس کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ چین نے تاریخی اعتبار سے اس خطے کے سمندر اور وسائل پر کنٹرول کر رکھا ہو۔ عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ آج کا دور سیاسی نظریات کے تصادم اور دوسروں پر اقتصادی بالادستی حاصل کرنے کا دور ہے اور امریکہ دنیا پر اپنا نیو ورلڈ آرڈر مسلط کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ چین اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس لئے وہ اس کو زیرِ نگیں کرنا چاہتا ہے اس کے لئے وہ ویت نام، فلپائن اور دوسرے ملکوں کو اکسا رہا ہے۔ فلپائن علاقائی سرحدی تنازعات کو بنیاد بنا کر چین کو عالمی عدالتِ انصاف کے کٹہرے میں گھسیٹ رہا ہے۔ ویت نام میں گلی کوچے چین مخالف نعروں سے گونج رہے ہیں۔ یہ امریکی حکمتِ عملی کا شاطرانہ انداز ہے کہ ماضی کا بدترین دشمن ویت نام آج اس کے ہر حکم کو بجا لانا اپنا فرض سمجھتا ہے، آج ہنوئی اور منیلا کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ چین کو نیچا دکھانے کے لئے چالاک امریکی نسلی اور لسانی منافرتوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ سنکیانگ کے مسلم اکثریتی صوبے میں گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری سیاسی بے چینی کو امریکہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ بے چینی کی سلگتی آگ اب دہشت گردی کے روپ میں شعلہ جوالا بن چکی ہے۔ امریکی دو غلے پن کی انتہا ہے کہ انہوں نے سنکیانگ میں جاری بغاوت اور کھلی دہشت گردی کو کبھی تسلیم نہیں کیا اور حالیہ دہائی کے ابتدائی سالوں سے جاری دہشت گردانہ حملوں کو معمول کی بے چینی قرار دے رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی طاقت کے سہارے امریکہ نے افغانستان اور پاکستان میں جہاد کو طعنہ بنا کر رکھ دیا ہے لیکن سنکیانگ سے شام تک وہی پرانا کھیل کھیل رہا ہے جس کے لئے وہ مشہور ہے۔ امریکہ علاقائی اتحادوں ، نسل اور لسانی منافرتوں کی آڑ میں چین کیخلاف سازشیں کر رہا ہے۔ لیکن زمینی حقائق اور حالات کا دھارا مخالف سمت میں موڑنا اس کے بس کا روگ نہیں ہو گا۔ امریکہ نے اس سے قبل ویت نام کی طویل جنگ لڑی جس میں امریکہ کو کئی حلیف ممالک کی مدد حاصل تھی لیکن اسے حاصل کیا ہوا وہ بری طرح شکست کھا کر ویت نام سے نکلا۔ افغان مجاہدین کے خلاف ساری قوت استعمال کی لیکن افغانستان کے مجاہدین کو شت نہیں دے سکا اور وہاں سے بھی اب نکلنے کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔
امریکہ کے نئے عالمی نظام کا محور و مرکز یہ سوچ ہے کہ وہ اپنی معیشت کے استحکام ، اقتصادی بحران پر قابو پانے اور نئی ابھرتی ہوئی اقتصادی و صنعتی طاقتوں کا مقابلہ کرنے اور خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے، مذہبی عصبیت کے حوالے سے مسلمان ممالک کو ہر شعبۂ زندگی میں پسماندہ رکھنے، ان کے وسائل پر قبضہ جمانے اور جدید ٹیکنالوجی سے انہیں محروم رکھ سکنے میں کامیاب ہو سکے۔ روس افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں شت اور پسپائی کے بعد اس قابل نہیں رہا کہ وہ امریکہ کو للکار سکے یا کہیں اس کے مقابلے پر آ سکے وہ اندرونی انتشار کا شکار ہے اور اس کی کئی ریاستوں میں مکمل آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں لہٰذا اب امریکہ کا راستہ صرف چین ہی روک سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر چین کے لئے مشکلات کھڑی کرنے میں لگا رہتا ہے۔ امریکہ کو چین پاتان تعلقات بھی اسی لئے کھٹک رہے ہیں کہ وہ اسے کنفیوشس اور اسلامی تہذیب کا ملاپ سمجھتا ہے۔ پاتان ایسے خطے میں واقع ہے جہاں امریکہ اپنے نئے عالمی نظام کا اطلاق چاہتا ہے اور پاتان اس خطے میں خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ اس علاقے میں چین، پاتان اور ایران کے مفادات خاصی حد تک مشترک ہیں۔ امریکہ کو چین پاتان اور ایران کے بڑھتے ہوئے روابط پر بھی تشویش لاحق ہے۔ اس صورتحال کی بناء پر امریکی پریشان ہیں کہ وہ اس علاقہ کو طرح اپنے مفادات کے تابع کر سکتے ہیں۔
امریکہ اس وقت پوری دنیا پر اپنی مرضی ٹھونسنے کا بھرپور مظاہرہ کر رہا ہے جب کہ سوویت یونین کی تباہی کے بعد پوری دنیا کی نظریں اب چین کی طرف اٹھی ہوئی ہیں ۔ امریکہ اپنی سوچ میں تبدیلی پیدا کرے تو دنیا کے بہت سے مسائل بشمول دہشت گردی خود بخود حل ہونے شروع ہو جائیں گے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی میں جو اضافہ ہو رہا ہے اس کی وجہ مختلف ممالک کے بارے میں امریکہ کا تعصب پر مبنی رویہ اور جانب دارانہ پالیسیاں و اقدامات ہیں۔ طویل عرصہ تک ان پالیسیوں کے نتائج کا عذاب سہنے کے بعد ظلم اور استحصال کا شکار رہنے والی قوموں میں امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا جو بڑھتا بڑھتا دہشت گردی کی شکل اختیار کر گیا۔

مزیدخبریں