مکرمی:دیگر رفاہی، سیاسی و مذہبی تنظیموں،اداروں اور شخصیات میں آیت اللہ علی سیستانی، نجف اشرف عراق، محمد یاسین ملک مقبو ضہ کشمیر، جماعتِ اسلامی پاکستان، پاکستان مسلم لیگ، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان پیپلز پارٹی، جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی، الخدمت فا¶نڈیشن، الرشید ٹرسٹ،اسلامک ریلیف، جماعة الدعو?، المصطفیٰ ویلفر ٹرسٹ،، الرحمت ٹرسٹ، الاختر ٹرسٹ، حسینی ریلیف، منہاج القرآن، جمعیت اہل حدیث، تمام جامعات، جابر بن حیان ٹرسٹ، اُمہ ویلفیئر ٹرسٹ، سرحد رورل سپورٹ پروگرام، دی میسج، جامعہ اہلِ بیت، معصوم ویلفیئر ٹرسٹ، مُسلم ہینڈز،ڈسٹرکٹ کونسل سکردوو خپلو، ادارہ خدمت انسانی، (آئی کے آئی)، مسلم گلوبل ریلیف، انجمن ِ فاضلیہ(گڑھی شریف)، الصفہ فاو?نڈیشن، ینگ بلڈڈسکہ، اسلامک ڈیموکریٹک پارٹی، خاکسار تحریک، اسلامک ہیلپ، ہیلپنگ ہینڈز، ہیلپر فاو?نڈیشن(وسطی باغ) الفلاح ٹرسٹ، امیر بیگم ٹرسٹ،عظیم ماں فاو?نڈیشن (راولپنڈی)،گلزار صفیہ بیگم میموریل ٹرسٹ، جموں وکشمیر رہبرویلفیئرٹرسٹ(آزاد کشمیر)، مقصود ویلفییرفاونڈیشن، عنم فاو?نڈیشن، مغل فاو?نڈیشن لاہور، سہارا ویلفیئرٹرسٹ، تمام اخبارات، پریس کلب، خبیب فاو?نڈیشن، تبلیغی جماعت، دعوتِ اسلامی، انجمن طلبائاسلام، اسلامی جمعیت طلبہ،تحریک اسلامی اور دیگر سیاسی، مذہبی، رفاہی تنظیموں نے قابلِ قدر کام کیا۔ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں کی خدمات بھی ناقابل فراموش رہیں۔ زلزلہ زدہ علاقوں کے تعلیمی ادارے بُری طرح متاثر ہوئے تھے اس سلسلے میں محی الدین اسلامی یونیورسٹی، نیریاں شریف، آزادکشمیر نے 5000 طلبہ و طالبات کے لیے دس سالہ کفالت پروگرام شروع کیا جبکہ بین الااقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اور دیگر تمام جامعات اور تعلیمی اداروں نے بھی خوب کام کیا۔ سب کے جذبے کو سلام پیش کرنے کے بعد چند اہم اُمور کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے۔اب تک زلزلہ زدگان کی فوری امداد اور بحالی کا ایک مرحلہ طے کر لیاگیا ہے تاہم اُنہیں مستقل بنیادوں پر بحال کرنے کا مرحلہ جاری ہے۔ اس میں بھی اُسی جذبے کو برقرار رکھنالازم ہے۔ اس سلسلے میں فوری کاروائی سے ہٹ کر طویل المدت کام کی ضرورت ہے۔ اِس کے لیے فنڈز، وقت اور کارکنوں کی زیادہ ضرورت ہوگی۔ مصیبت زدگان کو معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لیے لازم ہے کہ اُنکی قدم قدم پر رہنمائی کی جائے۔ اِس سلسلے میں سرکاری اقدامات و بحالی کی کارروائیاں اپنی جگہ نہایت وقیع ہیں، لیکن تباہی کی شدت کو دیکھتے ہوئے حکومت کے ساتھ دیگر تنظیموں اور افراد کا میدان میں موجود رہنا اور مسابقت کے جذبے سے کام کرنا ضروری ہے۔ اِس میدان میں عبدالستار ایدھی (مرحوم) کا طرز عمل اورکیوبا کے ڈاکٹروں کا رویہ اپنا نا ہوگا کہ جن کے ہاں آرام نام کی کوئی شے نہیں تھی اِس سلسلے میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کسی سے امتیاز برتا جائے نہ کسی کی خودی مجروح ہونے پائے۔ ٓازاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کی حکومتوں کو بھی اب مزید ذمہ داریاں اٹھانی چاہیئں۔صرف امداد کے سہارے لوگوں کا زندہ رہنا ممکن نہیں ہوتا۔کئی حوالوں سے زلزلہ کے بعد فوج کے طرز عمل پر تنقید ہو ئی تھی تاہم یہ کوئی قابلِ قدر رویہ نہیں۔ فوج نےERRAکے ذریعے نظم و ضبط بحال کرنے اور لوگوں کی خدمت کے ضمن میں بے پناہ کام کیا۔ یوں اپنے فوجی بھائیوں کو مفت میں بدنام کرنے کا آخر کیا فائدہ؟ مختلف علاقوں تک رسائی کو ممکن بنانا فوج کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اِسی طرح ابتدائی مالی امداد کی تقسیم خامیوں کے باوجود فوج کے ذریعے ہی ممکن ہو سکی تھی۔ زلزلہ کے بعدبارہ سال کا عرصہ گزنے پر یہ مضمون زلزلہ زدگان کی امداد کے ضمن میں کام کرنے والی ملکی و غیر ملکی، سیاسی، مذہبی، رفاہی تنظیموں، شخصیات اور اداروں کے کام کا یک گونہ اعتراف ہے۔ ان تنظیموں اور افراد نے درحقیقت زلزلہ زدگان کیلئے اتنا بڑا کام کیا کہ اسے الفاظ میں خراج تحسین پیش کرنا محال ہے۔
(ختم شد)
زلزلہ کے بارہ سال: ہمیں متاثرین بُھولے نہ محسنین
Oct 08, 2017