واشنگٹن (آئی این پی) بھارت کے بعد سی پیک منصوبہ امریکہ کو بھی کھٹکنے لگا، امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ چین کا منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ متنازع علاقے سے گزر رہا ہے اور اس طرح سے وہ خود ہی اپنی کمزوری ظاہرکر رہا ہے۔ غیرملکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے کانگریس کو آگاہ کیا کہ اسے بھی اس بات کا یقین ہے کہ پاکستان چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبہ متنازع علاقے سے گزر رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو بتایا کہ چین کا منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ (جس میں سی پیک بھی شامل ہے) متنازع علاقے سے گزر رہا ہے۔ رواں ہفتے کے آغاز میں امریکی سیکرٹری دفاع جم میٹس اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ سینٹ اور ہائوس آرمڈ سروسز پینل کے سامنے پیش ہوئے اور قانون سازوں کو پاک افغان خطے کی موجوہ صورتحال کے بارے میں آگاہ کیا۔ امریکی سیکریٹری دفاع جیمز میٹس نے کہا کہ امریکہ ون بیلٹ ون روڈ کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں کئی سڑکیں اور گزرگاہیں موجود ہیں تاہم کسی بھی قوم کو ون بیلٹ ون روڈ پر اپنی من مانی نہیں کرنی چاہئے۔ خیال رہے کہ سی پیک منصوبے پر سیکرٹری دفاع کے اس بیان کے بعد پاکستان امریکہ تعلقات میں مزید خرابی پیدا ہو سکتی ہے جو کہ 21 اگست کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ پالیسی کے تحت افغانستان میں بھارت کو دیئے گئے اہم کردار کے حوالے سے پہلے ہی کشیدگی کا شکار ہیں۔ امریکی سیکریٹری دفاع نے مزید کہا کہ ہم انسدادِ دہشتگردی کے حوالے سے چین کے ساتھ کام کر سکتے ہیں تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ 'امریکہ کو چین کے بارے میں کسی بھی ابہام میں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ حکمت عملی کے تحت ہمیں چین کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے جہاں ہمارا خیال ہے کہ جس راستے پر وہ چل رہے ہیں، وہ غیر فعال ہے۔
امریکی مخالفت
بیجنگ (صباح نیوز)چین نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے اور اقتصادی راہداری پر امریکہ کے اعتراضات مسترد کردیئے۔ چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ایک پٹی ایک شاہراہ منصوبے کو اقوام متحدہ کی تائید بھی حاصل ہے جبکہ سی پیک کے باعث مسئلہ کشمیر پر اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ امریکی وزیر دفاع جم میٹس کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ ہم نے بارہا یہ بات کہی کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کسی تیسرے فریق کیخلاف نہیں اور اسکا علاقائی خودمختاری کے تنازعات سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ امریکی وزیر دفاع نے چین پر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے ذریعے دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ سی پیک متنازع علاقے سے گزرتا ہے جس کی وجہ سے امریکہ اصولی طور پر اسکی مخالفت کرتا ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ(OBOR) کے ذریعے دنیا پر اجارہ داری قائم کرنے کے امریکی الزام کو مسترد کرتے ہوئے بیجنگ نے کہا کہ OBOR تو محض ایک اہم بین الاقوامی عوامی منصوبہ ہے، یہ متعلقہ ممالک کے ساتھ چین کے تعاون کا اہم اور جامع ترقیاتی پلیٹ فارم ہے جبکہ 100 سے زیادہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیمیں اس میں شامل ہیں اور بھرپور حمایت کررہی ہیں۔ چینی حکومت نے کہا کہ 70 سے زیادہ ممالک اور عالمی تنظیموں نے OBOR پر چین کے ساتھ تعاون کے معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ سی پیک منصوبے کے تحت چین اور پاکستان کو سڑکوں، ریلوے، پائپ لائنز اور فائبر آپٹیکل کیبلز کے 3 ہزار کلومیٹر طویل نیٹ ورک کے ذریعے باہم منسلک کیا جائے گا۔ منصوبہ چین کے صوبے سنکیانگ کو براہ راست گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرے گا جہاں سے چین کو بحیرہ عرب اور پھر دنیا بھر تک رسائی ملے گی۔ سی پیک سے چین مشرق وسطی سے آنے والی اپنی تیل سپلائی کو پائپ لائنوں کے ذریعے سنکیانگ تک پہنچائے گا جس سے ایندھن کی ترسیل پر اس کے اخراجات میں نمایاں کمی آئیگی۔ واضح رہے کہ بھارت نے علاقائی تنازعات کا بہانہ بنا کر ون بیلٹ ون روڈ میں شرکت سے انکار کردیا ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی وزیر دفاع کے بیان پر ردعمل میں کہ ہے کہ سی پیک خطے کی ترقی، رابطے اور عوام کی بہتری کا منصوبہ ہے، بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے، بین الاقوامی برادری مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرائے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں کشمیریوں کیلئے استصواب رائے پر زور دیتی ہیں۔
چین