گزشتہ چند ماہ برطانیہ میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ اکثر پیدل چلتے ہوئے مو لس بورو کے قریب، سانپ کی طرح بل کھاتی ہوئی دریائے ٹیز (river tees)کے کنارے بنی پٹڑی پر چلتے ہوئے ٹیز بیراج پر پہنچتا۔ ٹیز بیراج دریائے کے سمندر میں داخل ہونے سے کچھ پہلے بنا ہوا ہے جب سمندر کے پانی کی سطح دریا کے بہاﺅ کی سطح سے زیادہ بلند ہوتی ہے تو بیراج کے دروازے بند کئے جاتے ہیں اور جب یہ سطح نیچے جاتی ہے تو دریائے کے بیراج کے دروازے کھولے جاتے ہیں اس طرح دریا میں سمندر کا کھارا پانی آنے سے روک دیا جاتا ہے اور بیراج کے ذریعے دریا ٹیز کا پانی زراعت کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ بیراج کے دروازے کھولنے سے آبی حیات، مچھلیاں وغیرہ بھی بہاﺅ کی مخالف سمیت دریا کے اندر داخل ہوتی ہیں یوں دریا میں مچھلی کی فراوانی ہے اور مچھلی کے شکاری اکثر شکار کرتے نظر آتے ہیں وطن واپس پہنچا تو لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں کالا باغ ڈیم کمیٹی نے 19ستمبر 2017ءکو آبی وسائل کے استعمال سے متعلق سیمینار کا اہتمام کیا تھا جس میں راقم نے شرکت کی۔ مقررین نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق صوبوں میں اتفاق رائے حاصل کرنے کے سلسلہ میں حکومت کی کوششوں کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور عوام میں ڈیم کے فوائد کو اجاگر کرنے کی کوشش کی منصوبہ بندی کی گئی اسی سلسلہ میں ایک یونیورسٹی کی انتظامیہ کی دعوت پر3اکتوبر 2017ءکو معیشت اور دیگر شعبہ ہائے تعلیمات سے متعلقہ طلبہ و طالبات کو ملک کی آبی وسائل اور کالا باغ ڈیم کی افادیت پر جامع ملٹی میڈیا پریزنٹیشن دیا۔ پریزنٹیشن کی تیاری کی تحقیق کے دوران مجھ پر چند خاص معاملات منکشف ہوئے جن کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
-1صوبہ خیبر پختونخوا میں منڈا ڈیم کو دوبارہ ڈیزائن کرکے دریائے سوات پر مہمند ایجنسی میں زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کیلئے مہمند ڈیم کی تعمیر پر کام کا آغاز کیا گیا ہے جو تقریباً اسی ماہ مکمل ہوگا جس سے علاقہ کے دس لاکھ ایکڑز زمین کو نہری نظام کے ذریعے پانی مہیا ہوگا۔ دریائے گومل پر گومل ڈیم مکمل ہو چکا ہے اور صوبے کا لاکھوں ایکڑرقبہ نہری نظام سے منسلک ہو کر زیر کاشت آگیا ہے۔ ٹانک زم ڈیم اور کرم تنگی ڈیم واپڈا کے جاری منصوببے ہیں جو آئندہ تعمیر نے ہیں۔
-2 نوشہرہ وادی کا سیلاب سے تحفظ صرف صوبہ خیبر پختونخوا کا مسئلہ نہیں ہے۔ نوشہرہ وادی کا تحفظ پاکستان کی عسکری ضرورت ہے۔ یہ وادی اور یہاں پر موجود عسکری تنصیبات پاکستان کی مغربی سرحدوں، پاک، افغان سرحد کی حفاظت پر موجود عساکر کی رسد و رسائل اور دیگر عسکری معاملات کیلئے انتہائی اہم ہیں۔ کالا باغ ڈیم کی بدولت نوشہرہ وادی کے زیر آب آنے کی افواہ پھیلائی گئی تو عساکر پاکستان نے اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیا۔ گو کہ 1956ءمیں امریکی ڈیموں کی معرو ف تعمیراتی کمپنی میسرز ٹپٹن اینڈ ہل کے ماہر انجینئروں نے پوری تکینکی تحقیق اور سروے کے بعد کالا باغ ڈیم کی سطح (ftmsl)،915فٹ ہونے کی صوت میں 945 ft Mslفٹ پر واقع نوشہرہ وادی کو ڈیم کی بدولت براہ راست یا بالواسطہ کسی بھی طرح کے سیلاب سے محفوظ قرار دیا مگر پھر بھی جنرل محمد ایوب خان نے اپنے دور صدارت میں عالمی بینک کے ڈیموں کی تعمیر کی ماہرکمپنی میسرز چاس، ٹی مین کو بطور خاص پشاور کو وادی اور نوشہرہ وادی کی انجینئرنگ اسٹیڈی پر مامور کیا تو انہوں نے بھی 1964سے1967ءتک کام کرکے اپنی رپورٹ میں پشاور وادی اور نوشہرہ وادی کو کالا باغ ڈیم کی وجہ سے کسی بھی قسم کے سیلابوں سے محفوظ قرار دیا۔1972ءمیں ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے پاکستانی کمپنی ہزاروں انجینئرنگ، اور اے سی ای کراچی کے ڈیموں کی تعمیراتی اور آبی انجینئرنگ اور اے سی ای کراچی کے ڈیموں کی تعمیراتی اور آبی انجینئرز سے تحقیقات کرا کے پشاور وادی اور نوشہرہ وادی کا محفوظ ہونا یقینی کیا تب جا کر 1975ءمیں عالمی بینک سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈز کے حصول کی خاطر کالا باغ ڈیم کا منصوبہ انہیں پیش کیا تھا۔
جنرل ضیاءالحق کے دور میں عسکری قیادت نے نوشہرہ وادی کی حفاظت سے متعلق مزید انجینئرنگ تحقیق کرنا چاہی۔1983ءمیں دنیا کے بہترین ڈیموں اور آبی انجینئر، فرانس سے انجینئر پیری لونڈے، سوئٹزرلینڈ سے انجینئر ڈاکٹر گلو مبردی امریکہ سے انجینئر ڈاکٹر جیمس شیرارز،خ انجینئر جان نو ویلی اور انجینئر جان پار کا کہان اور جرمنی سے انجینئر ڈاکٹر کلاﺅس، ڈبلیو، جان کو مامور کیا اور انہوں نے اپنی رپورٹ میں یقین دلایا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بدولت نوشہرہ وادی کو کسی قسم کی سیلاب کا خطرہ نہیں ہوگا۔ آخر حکومت نے فیصلہ کیا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کی جائے۔ ایف ڈبلیو او نے ڈیم کے موقع تک رسائی کیلئے 11ملین روپیہ کے خرچ سے اپریل 1983ءسے اگست 1984ءتک چکدرہ ، کالا باغ سڑک تعمیر کر لی۔ کالا باغ ڈیم کی سائیٹ پر 4 ملین روپیہ کے خرچ سے 1984ءمیں ہوائی اڈہ تعمیر کر کے مکمل کیا گیا۔ (تفصیل کےلئے بریگیڈیئر توصیف الزماں خان کے حوالے سے میری کتاب ”پاکستان آبی و سائل صفحہ 106 سے 108 ملاحظہ ہو) کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے تمام دیگر انفرا اسٹرکچر بھی ان ہی دنوں میں تعمیر ہوا۔ ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ دینے سے پہلے جو لائی1987ءمیں حکومت پاکستان نے چین کے مشہور ڈیموں کے ماہر انجینئر ڈاکٹر ڈنگ لیازہن سے دوبارہ سروے کرایا اور انہوں نے اپنی رپورٹ میں نوشہرہ وادی کو کالا باغ ڈیم بننے کی صورت میں سیلاب سے محفوظ قرار دیا۔ اس کے علاوہ دسمبر 1987ءہی میں امریکہ کے انجینئر جان ایف کینیڈی پاکستان کے انجینئر خالدمحمود اور برطانیہ کے انجینئر ڈاکٹر ڈبلیو۔ رونڈی وائیٹ کے ذریعے تحقیق کروا کر یقینی کیا گیا کہ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے نوشہرہ وادی کے لئے سیلاب کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ابھی جبکہ دریائے سوات جو کہ دریائے کابل کا بڑا معاون دریا ہے اور جس کی بدولت اکثر پشاور وادی اور نوشہرہ وادی میں سیلاب آتے رہے ہیں اس پر مہمند ڈیم تعمیر ہو رہا ہے۔ گومل زم ڈیم مکمل ہوچکا ہے اور ٹانک زم ڈیم اور کرم تنگی ڈیم بھی تعمیر ہوئے ہیں تو صوبہ خیبرپختونخواہ کے لئے کسی قسم کے تحفظات باقی نہیں اس لئے اور ان کی طرف سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے اتفاق کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
-3 صوبہ پنجاب میں اکثرتباہ کن سیلاب آتے رہتے ہیں۔ دریائے سندھ، دریائے جہلم، اور دریائے چناب کی سیلابی پانی کے علاوہ انڈیا بھی دریائے راوی اور دریائے ستلج میں پانچ یا چھ ملین ایکڑ فٹ سیلابی پانی رواں کرتا ہے جس کی وجہ سے دریائے چناب میں تریموں اور پنجند بیراجوں سے اوپر بہاﺅ پر تباہ کن سیلاب آتے ہیں۔
اس کے سدباب کے لئے تریموں بیراج کی مرمت اور توسیع پر تعمیراتی کام جاری ہے جو 2020 میں مکمل ہو گا اور بیراج سے 8 لاکھ 75 ہزار کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش بن جائے گی۔ دریائے چناب پر پنجند بیراج کی مرمت اور توسیع کا تعمیراتی کام جاری ہے اور 2019ءمیں مکمل ہونے کے بعد 8 لاکھ 65 ہزار کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش ہو گی۔ دریائے چناب کے بہاﺅ کے قریب چنیوٹ کے مقام پردس لاکھ ایکڑ فٹ پانی کا ذخیرہ کرنے کے لئے ڈیم کی تعمیر پر کام ہو رہا ہے۔ یہ ڈیم اور اس میں ذخیرہ کردہ پانی واٹر اپورشن مینٹ اکارڈ کی شقوں کے مطابق خالصتاً پنجاب کی ملکیت ہے۔ چنیوٹ ڈیم پر 66 میگاواٹ بجلی کی پیداواری صلاحیت کا ہائیڈرو پاور تعمیر ہونا ہے۔ یہ بجلی چنیوٹ کے قریب، سونا، چاندی، تانبہ او لوہے کے ذخائر نکالنے کے بعداسے پراسس کرنے کے کارخانوں کو چلانے کے لئے استعمال ہونا ہے۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں پنجاب میں رواں ہونے والے پانچ دریا، دریائے سندھ کے بہاﺅ کے دونوں اطراف بند بنے ہوئے ہیں۔ ان دریاﺅں کے بندوں کے درمیان زراعت کے لئے کالا باغ ڈیم کے ذریعے MAF 12.8 ملین ایکڑ فٹ پانی مہیا کیا جائے گا جس سے تمام دریاﺅںکے سیلاب/ کچے کی زمین پر فصلیں کاشت کی جائیںگی اس سے سندھ اور پنجاب کے کچے کے کاشتکاروں کو فائدہ ہو گا۔ (جاری)
-4 صوبہ بلوچستان کے لئے کوہ سلیمان کے مشرق میں واقع 26 لاکھ ایکڑ بنجرقابل کاشت زمین کے لئے کچھی کینال کے ذریعے پانی مہیا جا رہا ہے جو تکمیل کے بعد صوبہ بلوچستان کی وادیوں میں رواں تقریباً 15 دریا اور سینکڑوں پہاڑی ندی نالوں پر ڈیم اور رکاوٹی ڈیم تعمیر کئے جا چکے ہیں۔ ناڑی طاس میں دریا بولان اور دریا ناڑی پر 81 رکاوٹی ڈیم کے علاوہ کمبری ڈیم اور یوہی ڈیم تعمیر کر لئے گئے ہیں اور حال میں نولانگ ڈیم پر واپڈا نے تعمیر کا آغاز کیا ہے۔
اس کے علاوہ ہنگول ڈیم، اور نال دریا اور گورک دریا پر بھی واپڈا نے ڈیم تعمیر کرنے کا آغاز کیا ہے۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان کے دریاﺅں اور ندی نالوں پر ڈیم اور رکاوٹی ڈیم تعمیر کئے جائیں تو کوہ سلیمان کے مغرب میں واقع بلوچستان کا تمام 90 لاکھ ایکڑ قابل کاشت بنجر زمین زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کی طرف سے بھی کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لئے اتفاق کرنا ممکن ہو گیا ہے۔
-5 سندھ کی تحفظات میں سے بدین کی سیم زدہ زمین کی بحالی کے اقدامات کئے جا چکے ہیں۔ لیفٹ بنک آﺅٹ فال ڈرین کی تکمیل ہو چکی ہے اور اسے بدین ضلع میں نیشنل ڈرینج پروگرام کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جس کی بدولت ضلع بدین کی سات لاکھ ایکڑ سیم زدہ زمین بحال ہو گئی ہے۔ 1960ءکی دہائی میں بدین ضلع میں ایک شوگر مل ہوا کرتا تھا، اب وہاں مزید چھ شوگر مل چل رہی ہیں۔ البتہ سیم و تھور کا پانی شاہ سماندو کھاڑی کے ساتھ چھوڑا گیا ہے جس کے ذریعے سمندر میں خارج ہوتا ہے جس میں سمندر کا پانی بلند ہونے کی صورت میں کھارا پانی چڑھ آتا ہے۔ جو وہاں کے کاشتکاروں کے لئے باعث تشویش ہے اس پر آٹومیٹڈگیٹ تعمیر ہونے ہیں تاکہ سمندر سے آنے والے پانی کو روکا جا سکے اور سیم کا پانی سمندر میں جانے دیا جائے یہ کام مکمل ہونے کی صورت میں ضلع بدین کاشتکار مطمئن ہو جائیں گے۔
سندھ کے عوام سمندر کے ساحل پر مین گروز کے جنگلات کے خاتمے اور ساحلی پٹی کی سمندر بردگی کی شکایت کرتے ہیں اور اس صورتحال کو ڈیموں کے وجود کے ساتھ منسوب کر کے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں۔ پاک بحریہ نے اپنی دفاعی ضروریات کے تحت سرکریک سے اورماڑہ تک سمندر کے ساحل پر مین گروز کے جنگلات اگائے ہیں۔ مرکزی حکومت، پاک بحریہ کے تعاون سے مزید جنگلات اگائے تاکہ سندھ کے عوام کی شکایت دور ہو۔
دریائے سندھ میں پانی کا بہاﺅ کم ہو جاتا ہے تو دریا میں ٹھٹھہ سجاول پل سے زیریں بہاﺅ پر اگھی مانی تک سمندر کا پانی چڑھ آتا ہے۔ واٹر اپورشن مینٹ اکارڈ 1991ءکی شق نمبر 7 اور بعد کے ارسا کے ماہرین کے مطابق پانی کی معقول مقررہ مقدار کوٹڑی بیراج سے نیچے بہاﺅ میں خارج کئے جانے سے سمندر کا پانی اوپر آنے سے رک جائے گا۔ دنیا کے کئی ممالک نے اس کا سدباب انجینئرنگ اسٹرکچر اور اس میں جدید طریق کار استعمال کرکے کیا ہے۔ انڈیا نے کیرالہ اسٹیٹ میں رواں ہونے والے دریا اچنکول پر تھوٹا پلی کے مقام پر اسپل وے تعمیر کیا ہے۔ برطانیہ نے دریا ٹیمز پر ٹیمز بیریئر تعمیر کیا ہے اور دریا ٹیز پر مڈلز بورو کے مقام پر ٹیز بیراج تعمیر کرکے سمندر کے پانی کو دریا میں آنے سے روک دیا ہے۔ مرکزی حکومت کو چاہئے کہ دریا سندھ پر کیٹی بندر کے قریب موزوں مقام پر بیراج یا اسپل وے تعمیر کرے اور اس پر جہازوں کے گزرنے کیلئے River Lock ریور لاک تعمیر کرے۔ اسپل وے کی صورت میں ایک دروازہ بھی تعمیر کرے تاکہ وقتاً فوقتاً کھولنے سے سمندری آبی حیات‘ مچھلیاں دریا میں ہجرت کر سکیں۔ اسپل وے یا بیراج کی تکمیل کے بعد کوٹڑی سے معقول مقدار میں پانی نیچے خارج کیا جائے تاکہ دریا سندھ کیٹی بندر سے کوٹڑی تک ایک جھیل کی صورت اختیار کر جائے اور اس میں جہازرانی کی صورت بن سکے۔
یوں کراچی پورٹ سے کوٹڑی تک بڑے بارجز کے ذریعے تجارتی مال کی نقل و حمل ہو سکے۔ بعد میں کالاباغ ڈیم مکمل ہوتا ہے تو سیلابی پانی ریگولیٹ ہونا ممکن ہوگا۔ ڈیموں سے زراعت کیلئے پانی کے اخراج سے کوٹڑی تک دریا میں پانی کا اتنا بہاﺅ ممکن ہوگا کہ 200 سے 300 ٹن وزن کا مال اٹھانے والے بارجز اٹک سے کراچی بندرگاہ اور اس سے بھی آگے گوادر تک جا سکیں گے۔ یوں خشکی کے راستے CPEC کی راداریوں کے ساتھ دریائی راہداری ایک اضافی روٹ بن جائے گا جو پاکستان کی معاشی ترقی میں اضافہ کا سبب بنے گا۔
سندھ میں دو عدد چھوٹے ڈیم بنے ہیں۔ نٹیں گاج ڈیم‘ گاج کے پہاڑ ندی پر اور دراوت ڈیمز‘ باران کے پہاڑی ندی پر تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ چھوٹے ڈیم ہیں جس طرح صوبہ خیبر پختونخوا‘ پنجاب اور بلوچستان میں ڈیمز زیرتعمیر ہیں اسی طرح سندھ کے عوام کا حق بنتا ہے کہ مرکزی حکومت کی طرف سے سیہون بیراج‘ منچھر ڈیم اور چوٹیاری ڈیم (پہلے سے بنا ہوا ہے) اور انہار کے کمپلیکس منصوبہ پر عملدرآمد کیا جائے اور تعمیر کا آغاز کیا جائے جس کے ذریعے سندھ کے ضلع سانگھڑ‘ ضلع عمر کوٹ اور ضلع مٹھی کے مشرق میں تھر کی قابل کاشت بنجر زمین کیلئے دیا سندھ کا پانی پہنچایا جائے۔ سندھ کے عوام کا مطالبہ ہے کہ آر بی او ڈی کا آلودہ پانی کو حمل جھیل اور منچھر جھیل سے بائی پاس کرکے براہ راست سمندر میں ڈالا جائے۔ اس کے علاوہ اینی کینال منصوبے کو گھوٹکی اور سکھر اضلاع کے علاوہ خیرپور ضلع تک بڑھایا جائے تاکہ سندھ کے مشرقی صحرا کیلئے دریا سندھ کا پانی پہنچانے کیلئے نہری نظام موجود ہو اور کالاباغ ڈیم مکمل ہونے کی صورت میں اپنے حصے کا اضافی پانی استعمال کر سکے۔ یوں سندھ کے عوام کے تحفظات دور کرکے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے اتفاق رائے حاصل کیا جائے۔
قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر جنجوعہ نے بجا طورپر فرمایا کہ دشمن کی بلوچستان اور کراچی کو علیحدہ کرنے کی کوشش ناکام بنا کر پاکستان کو خشکی سے گھرا ملک بنانے کے منصوبہ کو ناکام بنایا ہے۔ معاشی پابندیوں کے ذریعے پاکستان کو مجبور کرکے ایٹمی ہتھیار سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ جنرل ناصر جنجوعہ صاحب سے استدعا ہے کہ پاکستان سالانہ 35 MAF ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں بہا دیتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہر ایک ملین ایکڑ فٹ پانی زراعت کیلئے استعمال کرکے ہر سال دو ارب ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ اس حساب سے سالانہ 70 ارب ڈالر کی معیشت سمندر میں بہایا جاتا ہے۔ جس طرح دشمن نے کراچی اور بلوچستان کو علیحدہ کرنے کی سازش کی اور ہمارے ہی عوام کے ذریعے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جسے ناکام بنایا گیا۔ اسی طرح دشمن کالاباغ ڈیم کی تعمیر روکنے کیلئے ہمارے ہی ہم وطن لوگوں کو استعمال کر رہا ہے۔ قومی سلامتی کونسل اس پر دھیان دے اور اسے بھی ناکام بنائے۔ جہاں تک اقتصادی پابندیاں کا سوال ہے تو فقط کابالاغ ڈیم کی تعمیر مکمل کرکے 6.1 MAF ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ‘ 3.0 MAF ملین ایکڑ پانی منگلا ڈیم میں ذخیرہ اور 12.8 MAF ملین ایکڑ فٹ پانی بنتا ہے جوکہ 48.8 ارب ڈالر کی سالانہ کی معیشت ہے۔ اس کے علاوہ کابالاغ ڈیم سے 3600 MW میگاواٹ ہائیڈرو پاور بجلی پیدا ہونا ہے جوکہ پانچ ارب ڈالر سالانہ کی معیشت ہے۔ اگر کوئی گمان ہے تو جنوبی کوریا کے آبی وسائل کے استعمال کا مطالعہ کیجئے۔ 1961ءمیں جنوبی کوریا کی جی پی پی (فی کس آمدنی) 1106.7 ڈالر تھا۔ صدر لی میونگ بک کی قیادت میں 2011ءمیں دریاﺅں کی بحالی‘ آبی ذخائر اور ہائیڈرو پاور کی تعمیر اور آبی وسائل کے از حد استعمال کی بدولت چند برسوں میں 2014ءمیں بڑھ کر جی ڈی پی 24,565.56 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب ”پاکستان داخلی و خارجی چیلنجز“ (مطبوعہ فکشن ہاﺅس لاہور) صفحہ 238 سے 243 اور صفحہ 252 سے 260۔
اس تمام تحقیق کے بعد یہ امر یقینی ہے کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کی معیشت اور بقاءکیلئے انتہائی اہم منصوبہ ہے۔
کابالاغ ڈیم کی تعمیر میں تساہل پاکستان کی سلامتی کیلئے نقصان کا باعث ہے لہٰذا تندہی سے کالاباغ ڈیم کو تعمیر کیا جائے۔