نیویارک (بی بی سی)امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ نے ایک قانون وضع کیا ہے جس کے تحت ملازمت دینے والوں کو یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ اگر ان کے مذہبی یا اخلاقی عقائد کی خلاف ورزی ہو تو ان پر لازم نہیں کہ وہ اپنے ملازموں کو اسقاطِ حمل ادویات فراہم کرنے والی بیمہ پالیسی فراہم کریں۔امریکہ میں خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں نے ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
پلینڈ پیرنٹ ہڈ فیڈریشن‘ نامی تنظیم نے کہا کہ اس فیصلے کے ذریعے صدر ٹرمپ نے تقریباً سوا چھ کروڑ خواتین کے برتھ کنٹرول کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما نینسی پیلوسی نے کہا کہ خواتین کے متعلق انتظامیہ کا اقدام نئی پستیوں تک پہنچ گیا ہے۔امریکی سول لیبرٹیز یونین اور میساچوسیٹس ریاست نے اس فیصلے کو عدالتی طور پر چیلنج کیا ہے جبکہ کانگریس کے رپبلکن رہنماو¿ں نے اس فیصلے کی تعریف کی ہے۔ایوان کے سپیکر پال رائن نے کہا 'یہ فیصلہ مذہبی آزادی کے ضمن میں ایک سنگ میل ہے۔نامہ نگاروں کے مطابق اس تبدیلی کا اثر تقریباً چھ کروڑ امریکی خواتین پر پڑے گا۔خیال رہے کہ سابق صدر براک اوباما کے دور میں اس قانون کے تحت کمپنیوں کو خواتین کو مفت مانع حمل ادویات فراہم کرنا لازمی تھا۔لیکن اب امریکی محکمہ صحت نے کہا کہ کمپنیوں کے مالکان اور انشورنس کمپنیاں اپنی خواتین ملازموں کو مفت مانع حمل ادویات کی فراہمی کے لیے ذمہ دار نہیں ہیں۔تاہم ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کے باوجود زیادہ تر خواتین کو مانع حمل تک رسائی حاصل ہو گی۔صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس قانون کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔سینیٹر میگی حسن نے ٹویٹ کیا’ ’لاکھوں خواتین نے جنوری میں سڑکوں پر اپنی آواز بلند کی تھی۔ وہ ایسی خاتون مخالف پالیسیوں کی حمایت نہیں کریں گی۔“ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے وائٹ ہاو¿س کی پریس سیکرٹری سارہ سینڈرس نے کہا: 'صدر ٹرمپ نے پہلی ترمیم اور مذہبی حقوق کی حمایت کی ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ آخر اس میں مسئلہ کیا ہے؟ سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو صحیح قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ ایسے انسان ہیں جو آئین پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر لوگوں کو آئین کو کوئی بات پسند نہیں تو انھیں کانگریس سے اسے تبدیل کرنے کے لیے کہیں۔