کوئی اپنے عہد و پیماں سے اتنی جلدی بھی الٹے قدم گھوم سکتا ہے ۔مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ہے ۔مہذہب دنیا میں ایسا ہوتا ہے ۔ہمارے محترم کپتان جب دھرنا ایکسپریں کے مسافر تھے تو ہر روز ٹی وی سکرین پہ آکے مثالیں دیا کرتے تھے کہ جن ملکوں نے ترقی کی ہے وہ ملک ایک سسٹم کے تحت کام کرنے کی وجہ سے کامیابی کو پہنچے ہیں ۔پاکستان میں اگر کرکٹ ٹیم ہار جاتی تھی تو خان صاحب کہتے کہ یہ کیا بات کہ ملک کا وزیر اعظم کرکٹ ٹیم کے معاملات دیکھتا ہے ۔آسٹریلیا اور انگلینڈ میں ان کے بورڈ بااختیار ہیں ۔وہ ایک سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں ۔ملک کا کوئی سیاست دان یا نمائندہ حکومت ان کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا ہے ۔اور ان کی یہ بات بالکل درست تھی ۔لیکن یہ کیا ہوا ۔اقتدار خان صاحب کی جھولی میں ڈال دیا گیا ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان ٹیم جو چمیئن ٹرافی جیتی ہوئی تھی اس ٹیم کے کپتان ,کھلاڑیوں ,کوچنگ سٹاف اور بور ڈ عہدیدارا ن کو تھپکی دی جاتی ۔ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ۔لیکن خان صاحب نے جو سارے وعدے اقتدار پانے کے لیے کیے تھے ۔نئی حکومت کے ساتھ ہی بورڈ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ۔نجم سیٹھی سے لاکھ اختلاف کیا جاسکتا ہے ۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اپنی محنت سے نہ صرف پی ایس ایل کو کامیا بی سے چلا کے دکھا دیا بلکہ دنیا کرکٹ کے کھلاڑیوں کو پاکستان کے سونے میدان آباد کرنے کی کامیاب کوششیں کر کے ثابت کردیا کہ اگر کوئی نیک نیتی سے چاہیے تو ہر چیز ممکن ہے ۔ ۔۔مصباح کی ریٹائرمنٹ کے بعد اور بہت سے بڑے نامور کھلاڑیوں کے کردار پہ سوالیہ نشانوں کے بعد ایک عام سے کھلاڑی سرفراز کو کپتان بنادیا گیا ۔سرفراز کی قیادت میں پہلی بار پاکستان کرکٹ ٹیم نے چمپیئن ٹرافی کا ٹائٹل اپنے نام کرکے ہم وطنوں کے چہروں پہ خوشیوں کی بہار لا دی ۔لیکن بورڈ میں تبدیلی کے ساتھ ہی ٹیم میں تبدلیوں کے اشارے ملتے ہی ۔سرفراز جو ایک گری ہوئی ٹیم کو وکٹری سٹینڈ تک لے گیا تھا اس کی کارکردگی پہ سوالیہ نشان لگا کے اسے پریشر میں لانے کی کوششیں ہونے لگی ۔ ایشیا کپ میں لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی پاکستانی ٹیم ہے جس نے پچھلے سال انگلینڈ میں دنیا کرکٹ کی بڑی بڑی ٹیموں کو ہرا کے فائنل جیتا تھا ۔اس قدر برے کھیل کی وجہ یہ ہے آج پاکستان ٹیم کے بہت سے سینیر کھلاڑی سرفراز کو نیچا دکھانے کے لیے ٹیم میں گروپ بندی کا شکار ہو چکے ہیں ۔
جناب یہ کچھ آپ کے منتخب کپتان وزیر اعلی پنجا ب جناب عثمان بزدار کے ساتھ ہورہا ہے ۔آپ نے محترم عثمان بزدار کے ہاتھ پنجا ب کی بھاگ دوڑ دے کے جنوبی پنجا ب کے دکھ کم کرنے کی بہترین کوشش کی ہے ۔اور اس سلیکشن سے امید لگ رہی ہے کہ مستقبل میں کوئی سیاسی پنڈت جنوبی پنجاب کی محرومی کا رونا نہیں روئے گا ۔لیکن جناب مجھے یاد ہے کہ جنوبی پنجا ب سے پہلے بھی وڈیرے ,گدی نشین اور قدر آور لوگ تحت پنجا ب کے اعلی عہدوں پر براجمان رہ چکے ہیں ۔لیکن وہ اپنے علاقے سے اسی طرح بے خبر رہے جیسے محترم کپتان جی آج کل آپ عام پاکستانیوں کی سوچ و فکر سے بے خبر لگ رہے ہیں ۔ابھی تک عام پاکستانیوں کے لیے آپ کے وزیر و مشیروں نے کوئی خیر کی خبر نہیں دی ہے ۔عثمان بزدار ایک متوسط طبقے کا بندہ ہے ۔جس کا خاندا ن کئی عشروں سے سیاست میں موجود ہے ۔لیکن اتنے عرصے میں انہیں وہ پزیرائی نہیں مل سکی ۔جو انہیں آپ کی نظر محبت سے مل گئی ہے ۔اب بہت سے سینیر سیاست دان اس کے بارے پیٹھ پیچھے باتیں کر کے انہیں پریشر میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔کبھی خبر آتی ہے انہیں فائلیں پڑھنی نہیں آتی ہیں ۔تو کبھی کہا جاتا ہے کہ انہیں میڈیا سے بات کرنا نہیں آتا۔
جناب عمران خان صاحب منتخب وزیر اعلی کو مضبوط کریں نہیں توتحت لاہور آپ کے ہاتھوں سے نکل جائے گا ۔اپنے ساتھیوں کو سمجھائیں کہ تنکوں کے سہارے کھڑی حکومت کو تیز ہواوں کے حوالے نہ کریں ۔ابھی ضمنی انتخابات ہونے والے ہیں ۔اپنی منتخب شدہ ٹیم کو کو سمجھائیے انہیں سپورٹ کیجیے ۔اسی میں آپ کی پارٹی کی بہتری ہے اسی میں پاکستا ن کی بہتری ہو گی ۔کپتان جی آپ کو ابھی سے سسٹم کو مضبوط کرنے کا سوچنا ہوگا ۔ہمارا نظام عدل آپ کی بہت توجہ چاہتا ہے ۔ہماری عدالتوں میں سالہاسال مقدمات چلتے رہتے ہیں ۔لوگ پیشیاں بھگتتے بھگتتے اس دنیا سے پردہ کر جاتے ہیں ۔اگر اس ملک کو کچھ نیا دینا ہے تو ایک نظام انصاف دیجیے کہ ہر کیس کے فیصلے کے لیے وقت متعین ہو ۔جو وعدے کیے تھے انہیں یاد کرئیے انہیں حقیقت کا روپ دینے کی کوشش کیجیے۔تا کہ عوام جا ن جائے کہ آپ کی باتیں محض فسانے نہیں تھے بلکہ آپ کو اپنے لفظوں کا پاس ہے ۔
وہ باتیں تیری فسانے تیرے
Oct 08, 2018