امریکہ آنے والوں کو دنیا بھر کے ائیر پورٹس پر سیکیورٹی کے سخت تفتیشی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ تھرڈ ورلڈ سے پروازوں کو امریکی حدود میں ڈائرکٹ لینڈ کرنے کی اجازت نہیں۔ امریکہ اور یورپ کے سمندر کے اوپر آٹھ گھنٹے کی مسافت حائل ہے۔حضرت امریکہ کی سر زمین میں داخل ہونے سے پہلے مسافروں کی سمندر کے اس پارممالک میں اچھی طرح اور کئی بار چھان بین کے بعد امریکہ کے لئے طیارے پر بٹھایا جاتا ہے۔ جبکہ باقی دنیا میں سفر کرنے کے لئے روٹین کا سیکیورٹی چیک ہوتا ہے لیکن پوسٹ مارٹم قسم کی سیکیورٹی امریکہ داخلے کے لئے شرط ہے۔ پاکستانی قومی ائیر لائن مرحومہ جس زمانے میں امریکہ سے پرواز کیا کرتی تھی نیویارک سے براہ راست لاہور جاتی تھی لیکن پاکستان سے ڈائریکٹ نیویارک داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ مختلف یورپی ممالک میں ٹرانزٹ ہوتا جس کے دوران پاکستانیوں کا شرمناک سیکیورٹی چیک کیا جاتابلکہ پی آئی اے کے الگ کاﺅنٹر بنے ہوئے ہیں جبکہ پی آئی اے دیوالیہ کے سبب امریکہ سے وطن کے لئے پروازیں قطعی منسوخ کی جا چکی ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے تبدیلی ایجنڈے کے تحت شاید پی آئی اے کی تباہ حالی کی طرف بھی نظر کرم ہوجائے۔پی آئی اے پر پابندی سے پاکستانی وطن فری آف کاسٹ میت لے جانے کی سہولت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ پی آئی اے کی سروس اتنی بری نہیں البتہ جہاز پرانے ہوگئے ہیں اور جہازوں کی قلت بھی ہو گئی ہے۔
امریکہ سے اٹلی ہمارا حالیہ سفر بذریعہ امریکن ائیر لائن رہا۔جہازوں کی حالت امریکہ میں بھی اچھی بُری ملے گی جبکہ اندرون ملک پروازوں میں مسافروں کی مہمان نوازی میں بھی بخیل ہیں۔ البتہ انٹرنیشنل فلائٹ میں فاقہ نہیں کراتے۔سمندر کے اوپر سوا آٹھ گھنٹے نان سٹاپ اس امریکن انٹر نیشنل ائیر لائن کی نہ سیٹیں آرام دہ ہیں اور نہ ہی تمام پروازوں میں انٹر ٹینمنٹ سکرین کی سہولت میسر ہے۔ اٹلی سے واپسی امریکن ائیر لائن کی سیٹ تو گزارا تھی ہی سامنے سکرین بھی موجود نہ تھی جس پر تمام گورے حیران دکھائی دئیے کہ یہ کس دور کا جہاز ہے۔اہل مغرب چونکہ مطالعہ کے عادی ہوتے ہیں لہٰذا دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں انٹر نیٹ یا انٹر ٹینمنٹ کے بغیر بھی طویل سفر سکون سے طے کر لیتے ہیں۔جہاز ہو ٹرین یا بس کا سفر بیگ سے کتاب نکالی اور کتب بینی میں مست ہو جاتے ہیں یا فرصت کو نعمت جانتے ہوئے سو جاتے ہیں۔ ساتھ والی نشست کے مسافروں سے گپ شپ میں پہل نہیں کرتے۔ مختصر بات مختصر جواب جبکہ ہم دیسی ماشاءاللہ جب تک ساتھ بیٹھے مسافروں کا شجرہ نسب نہ ٹٹول لیں بے چین رہتے ہیں۔ مرد خواہ کسی معاشرے سے ہوں خواتین سے گفتگو میں پہل نہیں کرتے۔ لیکن دیسی خاتون مسافر کے لئے گھنٹوں طویل سفر خاموشی سے طے کرنا امتحان سے کم نہیں۔ خاص طور پر پاکستانی خاتون مرد مسافر کے ساتھ بیٹھنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے اوراس وقت تک کھڑی رہتی ہے جب تک اس کی نشست بدل نہ دی جائے۔
سردارنی نے ہمیں دور سے تاڑ لیا تھا کہ ہم زبان معلوم ہوتی ہے اور اپنے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی لیکن گورے نشست تبدیل کرنے کے قائل نہیں لہٰذا سردارنی پنجابی میں گپ شپ مارنے کی حسرت لئے اپنی ہی نشست پر بیٹھی رہی۔بلا جواز نشست تبدیل کرنے کے قائل ہم بھی نہیں لیکن عجیب معاملہ ہوا جب نشست پر بیٹھتے ہی ائیر ہوسٹس ہمارے قریب آئی اور ہمارے ہاتھ میں نیا بورڈنگ پاس تھماتے ہوئے سرگوشی میں بولی کہ تمہاری نشست بدل رہی ہوں ، پیچھے فلاں نمبر والی نشست پر جا کر بیٹھ جاﺅ کیوں کہ تمہارے ساتھ والی نشست پر جو مسافر بیٹھنے والی ہے اس کی صحت کی وجہ سے تم بیزار ہو سکتی ہو۔ہم نے شکر ادا کیا کہ بروقت اچھی نشست مل گئی۔ ائیر لائن کے سسٹم پر خوشگوار حیرت بھی ہوئی کہ کمپیوٹر میں محفوظ مسافروں سے متعلق معلومات کے سبب مسافروں کی سیٹ ایڈجسٹ منٹ قابل تعریف نظام ہے۔ پہلے والی سیٹ کے ساتھ ایک بھاری وجود والی خاتون آکر بیٹھ گئی اور اس کے ساتھ ہماری نشست خالی ہی رکھی گئی۔ ہماری دیسی خواتین کے ساتھ والی نشست پر سفر کرنا پڑے تو اجنبی مسافروں کی نجی زندگی کی چھان بین شروع کر دیتی ہیں ،شادی کہاں ہوئی کب ہوئی شوہر کیا کرتا ہے بچے کتنے ہیں کیا کرتے ہیں شادیاں کہاں ہوئیں بچوں کے بچے بھی ہوئے یا نہیں ، حسب نسب، غرض اچھا خاصا پوسٹ مارٹم کر دیتی ہیں۔ یہ مغرب کے گورے نہ سیاست نہ مذہب نہ ذاتی زندگی سے متعلق سوال جواب کریں گے۔ زیادہ سے زیادہ موسم یا سفر سے متعلق گپ شپ کرلیتے ہیں۔ مزید دلچسپ بات یہ کہ ہم دیسی تمام وقت اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ ساتھ بیٹھے مسافر سے کوئی پرانی واقفیت نکالی جا سکے۔ اس کا آبائی گاﺅں علاقہ ذات برادری مسلک کچھ تو کھرا نکالاجائے۔ لیکن منزل پر پہنچتے ہی سب تتر بتر ہو جاتے ہیں۔ یہ زندگی بھی ایک سفر کی مانند ہے۔ اعمال نامہ مسافر کے پاسپورٹ کی طرح اہمیت رکھتا ہے۔اعمال نامہ پر پاسپورٹ کی طرح منزل کی نوعیت کے مطابق مہر لگا دی جاتی ہے۔جدھر کا مسافر ہے اُدھر دھکیل دیا جاتا ہے۔ ہر مسافر کو اپنے اپنے ٹرمینل کی جانب جانا ہے۔ اپنے اعمال کے بل بوتے پر پرواز پر سوار ہونا ہے۔ دوران سفر کئی مسافر ملتے بچھڑتے رہیں گے اور سفر کے اختتام پر سب اپنی اپنی منزل کو چل دیں گے۔ہوائی اڈہ ہو بس اڈہ یا ٹرین سٹیشن مسافر ادھر سے ادھر بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ سفر جتنا طویل ہے سامان بھی اتنا وزنی اٹھائے ہوئے ہے۔ایک دوست نے بڑی دلچسپ منظر کشی کی ہے کہ ایک گاوں میں غریب فیقا نائی رہتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا۔گزر بسر مشکل سے ہوتا۔ فیقے کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا نہ بیوی تھی نہ بچے تھے۔ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی۔جب رات ہوتی تو فیقا ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا تکیہ رکھتا اور سو جاتا۔ایک دن صبح کے وقت گاﺅں میں سیلاب آ گیا۔فیقے کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شوروغل تھا۔لوگ اپنا اپنا سامان گھر کی قیمتی اشیاءلے کر بھاگ رہے تھے۔فیقا یہ منظر دیکھ رہا تھا وہ اٹھا۔سکول کے ساتھ بنی ٹینکی پر چڑھ گیا۔چادر بچھائی دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا۔کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیاءلے کر بھاگ رہا ہے۔اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے۔جب وہ فیقے کے پاس سے گزرا تو اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو رک کر بولا۔۔۔ اوئے فیقے ساڈی ہر چیز اجڑ گئی اے ساڈی جان تے بنی اے تے تو ایتھے سکون نال لیٹا ہویا ویں....یہ سن کر فیقا ہنس کر بول....لالے اج ای تے غربت دی چس آئی اے....
جب یہ کہانی سنی تو روز محشر کا منظر نظروں کے سامنے گھومنے لگا کہ شاید بروز حشر کا منظر کچھ ایسا ہو۔جب تمام انسانوں کا حساب قائم ہو گا۔ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا۔ دو وقت کی روٹی ،کپڑا ،حقوق اللہ اور حقوق العباد ،ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہے گا۔ پلازے، دکانیں ، فیکٹریاں، گاڑیاں، بنگلے،سونا چاندی ،ملازم،پیسہ،حلال حرام،عیش و آرام ،زکواة ،حقوق اللہ ، حقوق العباد۔ اتنی چیزوں کا حساب پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہونگے۔ ایک طرف غریب کھڑے ان کو دیکھ رہے ہوں گے چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہونگے....اج ای تے غربت دی چس آئی اے....
غریب مسافر
Oct 08, 2018