احدچیمہ کی 25جولائی 2018کے انتخابات سے کئی ماہ قبل شہباز شریف کے وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے نیب کے ہاتھوں گرفتاری واضح طورپر یہ عندیہ دے رہی تھی کہ ”سیلابِ احتساب“ کو بالآخر کس کے گھر جانا ہے۔ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے Hands Onایڈمنسٹریٹر کہلواتے سپر سمجھدار مگر اس پیغام کو سمجھ نہ پائے۔ اس گماں میں مبتلا رہے کہ ہماری ریاست کے دائمی اداروں میں بیٹھے ا فراد کو ان کی معاملہ فہمی پر اعتبار ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ٹھوس ثقافتی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر شہباز صاحب کے لئے دورِحاضر کا ”اورنگ زیب“ ہونا ممکن نہیں۔ اس ضمن میں ان کی مجبوریوں کو کشادہ دلی سے تسلیم کیا جاتا ہے۔
طویل المدتی تناظر میں دائمی اداروں کو ویسے بھی معاملہ فہموں کی بوقت ضرورت کام آنے والی افادیت کا احساس ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف منتخب ہوجانے کے بعد شہباز صاحب اطمینان سے اچھے وقت کا انتظار کریں بالآخر کوئی نہ کوئی ”درمیانی راہ“ مل ہی جائے گی۔
اقتدار کے بے رحم کھیل میں لیکن ”درمیانی راہ“ نامی کوئی شے موجود نہیں ہوتی۔ یہاں تخت یا تختہ والے معرکے برپا ہوتے ہیں۔ جب حتمی شو ڈاﺅن کا فیصلہ ہوجائے تو آپ کو ایک دوسرے کے مقابل صف آراءہوئے فریقین میں سے کسی ایک کے ساتھ کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ شہباز صاحب اس ضمن میں شاعری والا ”وضو“کرتے رہے۔
حقائق سے قطعاََ لاعلم میں ہرگز اس پوزیشن میںنہیں ہوں کہ آشیانہ ہاﺅسنگ سوسائٹی کے حوالے سے شہباز صاحب پر لگائے الزامات کا غیر جانب داری سے جائزہ لے سکوں۔ ”قائدِ حزب اختلاف“ کی ”اس انداز میں ہوئی“ گرفتاری پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ہوا واویلا مگر مجھے منافقانہ محسوس ہوتا ہے۔ وطنِ عزیز میں اس ملک کے ”سب پربالادست“ کہلواتے ایوان کے قائد یعنی وزیر اعظم کو یوسف رضا گیلانی کی صورت میں یوں فارغ کردیا جاتا ہے جیسے چٹکی بجاکر آپ گھریلو ملازمو ں کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کا ”قائدِ ایوان“ یعنی نواز شریف کئی ہفتوں تک گریڈ 19سے 21تک کے سرکاری ملازموں پر مشتمل JITکے روبرو ملزموں کی طرح تفتیش کے لئے پیش ہوتا رہا۔ جس ایوان کے ”قائد“ کی کوئی عزت وتوقیر نہ ہو اس کے ”قائدِ حزب اختلاف“ کے احترام کی باتیں قطعاََ بچگانہ سنائی دیتی ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ شہباز صاحب نے اپنے اقتدار کے دس برسوں میں گورننس کا جو ماڈل اختیار کیا وہاں حتمی فیصلے فقط وزیر اعلیٰ کا حق واختیار تھا۔ گورننس کے بارے میں لکھی کتابوں میں ایسے ماڈل کو Top Downماڈل کہا جاتا ہے۔ اس ماڈل کی ہزار خوبیاں مگر لاکھوںقباحتیں ہیں۔ شہباز صاحب مگر اس کی پیروی کرتے ہوئے Deliverکرتے ہوئے نظر آئے۔ ان کے چاہنے والوں کو گماں تھا کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے عوام بھی ہاتھ اٹھاکر اپنے لئے شہباز صاحب جیسا وزیر اعلیٰ پانے کی دُعائیں مانگتے ہیں۔ شاید اسی باعث 25جولائی 2018کے روز وہ تمام ترمشکلات کے باوجود نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی پاکستان مسلم لیگ کو کم از کم وفاق اور پنجاب میں ہر صورت دوبارہ حکومت بنانے کے لئے ووٹ دیں گے۔روزِ انتخاب مگر رائے دہندگان گورننس کے اس ماڈل کو سراہتے ہوئے نظر آئے جو عمران خان صاحب نے خیبرپختونخواہ میں متعارف کروایا تھا۔
یہ لکھنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ نواز شریف کے نام سے منسوب ہوئی جماعت کے متوالوں کا دعویٰ ہے کہ 25جولائی 2018کے دن انتخابات منصفانہ نہیں ہوئے۔ ان کی جماعت کا مینڈیٹ مبینہ طورپر چرایا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا دعویٰ درست ہو لیکن اگر انہیں اپنے دعوے پر واقعتا دل وجان سے اعتبار تھاتو شہباز صاحب اور ان کے نو منتخب ساتھیوں نے 25جولائی 2018کے روز ”چوری ہوئے“ انتخابات کے ذریعے قائم ہوئی قومی اسمبلی میں بیٹھنے کا فیصلہ کیوں کیا۔شہباز صاحب نے اس قدر ا شتیاق سے اس ایوان میں قائدِ حزب اختلاف کا منصب حاصل کرنے کی زحمت کیوں اٹھائی۔ بطور رکن قومی اسمبلی حلف اٹھانے سے انکار کردیتے۔ تحریک نہیں چلاسکتے تھے تو کم از کم گھر بیٹھ کر اچھے وقت کا انتظار کرتے۔
یہ سوال اٹھانے کے بعد میں اس بنیادی حقیقت کی جانب لوٹتا ہوں کہ پنجاب کے دس برس تک حتمی فیصلہ ساز ثابت ہونے کے بعد شہباز شریف صاحب کی یہ اخلاقی ہی نہیں بلکہ سیاسی ذمہ داری تھی کہ احد چیمہ کی آشیانہ ہاﺅسنگ سوسائٹی کے معاملات کے حوالے سے گرفتاری کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیتے۔ نیب کو اس امورپر مجبور کرتے کہ وہ انہیں گرفتار کرکے اس سارے معاملے کی بے رحم تفتیش کرے ۔ احد چیمہ جیسے افسروں کو ”سلطانی گواہ“ بنانے کی کوششیں نہ ہوں۔پنجاب میں حکومتی سطح پر ہوئے ہر فیصلے کی وہ بحیثیت Hands Onوزیر اعلیٰ ذمہ داری اپنے سرلیتے ہیں۔ اس ضمن میں ہوئی خطاﺅں کی حتمی جوابدہی کے لئے وہ نیب کی حراست میں اس کی تسلی نہ ہونے تک رہنے کو ہر لمحہ تیار ہیں۔
احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد شہباز صاحب نے اپنے دروازے پر دستک دینا ایک تاریخی موقع ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کی بدولت ضائع کردیا۔بلھے شاہ کی بیان کردہ”آئی صورت“(جسے انگریزی میں شاید چیلنج کہا جاسکتا ہے) کے ہوتے ہوئے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کرتے ہوئے شہباز صاحب نے اپنے مداحین کو بھی مجبور کردیا ہے کہ وہ صبرکا سہارالیتے ہوئے تفتیشی اور عدالتی عمل کو اس کے منطقی انجام تک پہنچنے کا انتظار کریں۔ ”قائدِ حزب اختلاف“ کے ساتھ ہوئی ”زیادتی“ کے خلاف موجودہ حالات میں فقط بیان بازی ہوسکتی ہے۔ قومی اور پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں میں ہنگامے برپاہوسکتے ہیں۔ کسی ”عوامی تحریک“ کے امکانات فی الوقت موجود نہیں۔جو وقت آیا ہے اسے PMLNوالوں کو صبروہمت سے برداشت کرنا ہوگا۔
سپر سمجھدار شہباز ”پیغام“ کو سمجھ نہ پائے
Oct 08, 2018