ایل او سی کی طرف آزادی مارچ ‘ امریکی وفد کا مقبوضہ کشمیر کا دورہ‘ بھارتی مظالم پر تشویش‘ کرفیو ہٹانے پر زور دینے کا عزم
مقبوضہ کشمیر سے اظہار یکجہتی کیلئے جاری آزادی مارچ کے شرکاء کو ایل او سی سے 6 کلومیٹر دور انتظامیہ نے روک دیا۔ مارچ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کی اپیل پر کیا جا رہا تھا ، آزادی مارچ کو گڑھی دوپٹہ سے چکوٹھی کی طرف رواں دواں تھا، شرکاء کو چناری سے ایک کلومیٹر آگے جسکول آبشار کے مقام پر انتظامیہ نے روڈ مکمل بلاک کر کے روک دیا، مارچ کے شرکاء نے وہیں دھرنا دیدیا۔ اس سے قبل قائم مقام چیئرمین لبریشن فرنٹ حمید بٹ اور وائس چیئرمین سید توقیر گیلانی مرکزی راہنما رفیق ڈار کی قیادت میں ہزاروں افراد نے سیز فائر لائن کی طرف مارچ کیا۔اس موقع پر رہنمائوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک سیز فائر لائن پر دھرنا دینگے اور بیٹھے رہیں گے جب تک اقوام متحدہ کے مبصرین مقبوضہ کشمیر سے کرفیو نہیں اٹھواتے اور کشمیریوں کو ان کا پیدائشی حق نہیں دلواتے۔ فرنٹ کے راہنمائوں نے کہا کہ ہم پرامن رہیں گے ریاستی اداروں سمیت کسی کے ساتھ تصادم اور محاذآرائی نہیں کرینگے اورنہ ہمارا یہ مقصد ہے کہ آزاد کشمیر میں کسی قسم کی بدامنی پیدا ہونے دیں۔ ہماری صفوں میں کسی قسم کا کوئی تحریب کار ‘ دہشت گرد نہیںہے۔
دریں اثناء امریکی سینیٹر کرس وان، میگی حسن اور امریکی ناظم الامور پال جونز پر مشتمل وفد نے مظفر آباد کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد پانچ اگست کے بھارتی غیر قانونی اقدام کے بعد کی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال، زمینی حقائق اور عوام کے جذبات کو دیکھنا تھا۔ وفد کو میجر جنرل عامر نے لائن آف کنٹرول کی موجودہ صورتحال پر بریفنگ دی۔ وفد نے صدر اور وزیراعظم آزاد کشمیر سے بھی ملاقاتیں کیں۔ کشمیری قیادت کی جانب سے وفد کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں سے آگاہ کیا گیا۔ کشمیری قیادت نے وفد سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو بھارتی ظلم و ستم سے بچانے اور مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کیلئے بھارت پر دبائو ڈالنے کیلئے کہا۔ کشمیری قیادت نے امریکی وفد سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق امریکی عوام سمیت عالمی برادری کو آگاہ کریں۔ امریکی سینیٹرز نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ظاہر کی۔ امریکی سینیٹرز نے کہا کہ بھارت پر مقبوضہ کشمیر سے فوری کرفیو ختم اور زیر حراست کشمیریوں کو رہا کرنے کیلئے زور دینگے۔
مقبوضہ کشمیر میں اتوار کو مسلسل 64ویں روز بھی فوجی محاصرہ جاری رہا۔ وادی کشمیر اورجموںخطے کے مسلم اکثریتی علاقوں میں تمام دکانیں ، کاروباری مراکز اور تعلیمی ادارے بندجبکہ ٹریفک کی آمدورفت معطل رہی۔ بھارتی حکومت کی طرف سے 5اگست کو جموںوکشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کئے جانے کے بعد مقبوضہ علاقے میں معمولات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں۔ گزشتہ 9ہفتے سے علاقے میںموبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز مسلسل معطل جبکہ ٹرین سروس بندہے۔ ہسپتالوں تک مریضوں کی رسائی ناممکن ہے۔ کشمیری انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی ضروریات زندگی سے بھی محروم ہیں جس میں خوراک اور ادویات سرفہرست ہیں۔ لوگ گھروں میں محصور ہونے کے باعث روزگار سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں انسانی بحران اور المیہ جنم لے چکا ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بدترین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اُدھر بھارتی حکمرانوں کی سماعت تک کشمیریوں کے نوحے اور مرثیے نہیں پہنچ رہے۔ وہ عالمی برادری کی آواز کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے۔
ایسی صورتحال میں جب انسانیت سسک رہی ہو‘ سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے کر انسانی حقوق کی بحالی کا اہتمام کرتی ہے مگر بھارتی سپریم کورٹ نے نہ صرف خود اس معاملے کو اہمیت نہ دی بلکہ متعدد پٹیشنز پر سردمہری کا رویہ اختیار کیا۔ گزشتہ دنوں آخری سماعت تھی‘ اس موقع پر حکومتی وکیل نے مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا کی رپورٹ پیش کی جس پر سپریم کورٹ کی طرف سے اعتبار تو نہیں کیا گیا لیکن کشمیریوں کو ریلیف دینے سے بھی گریز کیا گیا اور سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی گئی۔ سماعت ایک ماہ کیا‘ اس سے بھی زیادہ عرصہ کیلئے ملتوی کی جاسکتی ہے مگر بدترین صورتحال کشمیریوں کو فوری ریلیف دینے کی متقاضی تھی۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حکومتی فیصلے کو معطل کرکے کشمیر میں معمولات زندگی بحال کرنے کا حکم دیا جا سکتا تھا۔ حکومت کی طرف سے اگلی سماعت پر پیش کئے جانیوالے شواہد کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ آرٹیکل 370 کی مستقل بحالی یا خاتمے کا فیصلہ کر سکتی تھی۔ بھارتی سپریم کورٹ نے کشمیریوں کو بھارتی بھیڑیا فورسز کے ظالم ہاتھوں بربریت کا نشانہ بنے رہنے کو زیادہ مناسب سمجھا۔ بھارتی انصاف کا سب سے بڑا فورم بھی شدت پسند آر ایس ایس کی طرح کشمیریوں سے متعصب نظر آتا ہے۔
بھارتی حکومت اور حکام دنیا کے ہر فورم پر وہی راگ الاپ رہے ہیں جس کی بھارتی حکومت کے وکیل نے رٹ لگائی کہ مقبوضہ کشمیر میں سب اچھا ہے۔ انسانی حقوق بحال ہیں‘ عوام خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔دنیا ان لغویات پر یقین کرلیتی جس کا اہتمام بھارتی حکومت کی طرف سے ذرائع ابلاغ پر کڑی پابندیوں کی صورت میں کیا گیا ہے مگر جدید دور میں پابندیاں بھی ایک حد تک ہی مؤثر ہو سکتی ہیں۔ ستم رسیدہ کشمیریوں پر توڑے جانیوالے مظالم کم ہی سہی مگر کسی نہ کسی صورت دنیا پر آشکار ہورہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان نے کشمیریوں کی آواز اور بھارتی فورسز کی بربریت سے اقوام عالم کو آگاہ کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ لہٰذا دنیا بھر میں کشمیریوں کیلئے ہمدردی کے جذبات سامنے آرہے ہیں‘ کشمیریوں کے حق میں عالمی سطح پر مظاہرے‘ انکے انسانی حقوق کی بحالی اور آزادی کے مطالبات ہورہے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی طرف سے کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے 9 لاکھ سے زائد جدید اسلحہ سے لیس فوج تعینات کی گئی ہے۔ انسانیت کو شرما دینے والے ٹاڈا اور پوٹا جیسے قوانین کے تحت اسے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ اسکے ساتھ ہی مقبوضہ وادی میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں‘ غیرجانبدار مبصرین اور امریکی سینیٹرز جیسے قانون سازوں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ امریکی وفد کو بھی بھارت نے مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی جبکہ آزاد کشمیر کا اس وفد کو دورہ کرایا گیا۔ پاکستان میں موجود غیرملکی سفارتکاروں اور پاکستان آنیوالے وفود کو آزاد کشمیر کے کسی بھی حصے میں جانے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ حکومت کی طرف اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ بھارت کی طرف سے غیرملکیوں پر مقبوضہ کشمیر میں داخلے کی پابندیاں بھارت کی طرف سے اپنے مظالم کی پردہ پوشی کیلئے عائد کی گئی ہیں۔
کشمیریوں پر بھارتی فورسز کی سفاکیت اب کوئی راز نہیں رہی‘ امریکی وفد نے اس پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ امریکی کانگرس کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس بھی اگلے چند روز میں ہورہا ہے۔ امریکی میڈیا بھی کشمیریوں پر بھارتی فورسز کے مظالم پر بات کرتے ہوئے مذمت کررہا ہے۔ اقوام متحدہ‘ یورپی یونین‘ او آئی سی‘ عرب لیگ سمیت دنیاکے ہر فورم‘ بااثر ممالک اور اہم عالمی شخصیات کی طرف سے ستم رسیدہ کشمیریوں کی حمایت میں آوازیں بلند ہورہی ہیں مگر ان کا بھارتی خونخوار سوچ کے حامل حکمرانوں کی طرف سے کوئی نوٹس لیا گیا نہ آئندہ ایسی کوئی امید ہے۔ عالمی برادری کو اب تشویش کے اظہار اور بھارت پر زبانی لعنت ملامت کے بجائے عملی اقدامات اٹھانا ہونگے۔ کشمیریوں کو بھارتی فورسز کے ستم سے بچانے کیلئے اسی طرح پابندیوں کا ہتھیار استعمال کرنا ہوگا جس طرح عراق میں صدام‘ افغانستان میں طالبان اور لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومتوں کیخلاف استعمال کیا تھا۔
آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کیلئے قافلے لائن آف کنٹرول کی طرف بڑھ رہے تھے جن کو چند کلو میٹر دور روک لیا گیا۔ ان قافلوں کی انتظامیہ نے پرامن رہنے کا یقین دلایا ہے۔ ان کو لائن آف کنٹرول کی طرف جانے دینا چاہیے۔ امریکہ کے دورے سے قبل آزاد کشمیر میں ایک جلسہ سے خطاب کے دوران لائن آف کنٹرول کو کراس کرنے کے نعرے بلند ہوئے تو وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ خود مناسب وقت پر لائن اور کنٹرول کراس کرنے کا اعلان کرینگے۔ آج ایل او سی کی طرف بڑھنے والے قافلوں کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ لائن آف کنٹرول پر دھرنا دینگے۔ انکی طرف سے لائن آف کنٹرول کو پار کرنے کی بات نہیں کی گئی۔ ایل او سی پر اپنی طرف بھارتی فورسز کی دستبرد سے دور رہتے ہوئے پرامن دھرنا دیتے ہیں جس کی عالمی کوریج ہوگی تو یقیناً اس سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا پردہ مزید چاک ہوگا تاہم لائن آف کنٹرول کو کراس کرنے کا یہ مناسب وقت اور موقع نہیں ہے۔ اس کا ادراک ایل او سی کی طرف مارچ کرنیوالوں کو بھی ہے۔