آج لڑائی شروع کرنا آسان ہے مگر امن قائم رکھنا بے حد مشکل کام ہے۔کوئی بڑے دل گردے والا ہی بر صغیر کی سو ارب آبادی کو امن کی نوید دے سکتا ہے۔
نوائے وقت کی ایک رپورٹ کے مطابق لائن آف کنٹرول کا رخ کرنے والے ہجوم کو آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔
اسوقت ہمارے ہاں ایک عجیب ابہام ہے اور ساتھ ہی ساتھ جذباتی فضا بھی پیدا کی جا رہی ہے کہ کشمیر کو بزور طاقت آزاد کرایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کا مقبوضہ کشمیر کے اسی لاکھ مسلمانوں پرظلم اور جبر حد سے بڑھتا جا رہا ہے مگر یہ بھی یاد رکھئے کہ اس مخدوش صورت حال پر ہمارے وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں بھر پور احتجاج بھی کیا اور دنیا کو اس کی سنگینی سے بھی آگاہ کیا۔ آج کی دنیا میں فیصلے طاقت سے نہیں ہوتے۔ امریکہ نے بیس برسوں سے افغانستان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ، اس کے پاس پاکستان سے ہزار گنا زیادہ فوجی طاقت بھی ہے اور سیاسی و سفارتی اثرو رسوخ بھی مگر بالآخر اسے مذاکرات کے ذریعے واپسی کا راستہ تلاش کرنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ نے عراق کو بھی زیر و زبر کر کے دیکھ لیا اور شام پر بھی کئی برسوں سے تباہ کن بمباری جاری ہے مگر امریکہ ان ممالک میں اپنے مقاصد کے حصول میںناکام رہا ہے۔ بھارت نے ضرور اکہتر میں ہمارے اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھایا اور مشرقی پاکستان کو الگ کروا دیا مگر سیاچین پر وہ ایک انچ آگے نہیںبڑھ سکا۔ انیس سو چھیاسی میں اس نے یہاں چوروں کی طرح قبضہ تو کر لیا مگر ا سکے قدم وہیں روک دیئے گئے۔ بھارت اور افغانستان نے ہمارے خلاف د ہشت گردی کی انتہا کر دی اور ہماری ستر ہزار جانیں چلی گئیں مگر وہ پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہیں کر سکے۔ کشمیر پر بھارت کا قبضہ ضرور ہے اورا سکی بنیادی وجہ تقسیم ہند کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ کی بد دیانتی ہے جس نے گورداس پور انڈیا کو دے کر اس کے لئے کشمیر پر قبضے کی زمینی راہ کھول دی۔ مگر پاکستان نے اسے جہاں روکا، بھارتی فوج بہتر برسوں میں اس سے ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکی اور لائن آف کنٹرول پر وہ ضرور وحشیانہ گولہ باری کرتا ہے مگر اسے کرارا جواب دے کر وہیں خاموش کروا دیا جاتا ہے۔کشمیر کا مسئلہ ضرور حل طلب ہے۔ پاکستان نے سلامتی کونسل کی ان قراردادوں کو قبول کرنے کا عہد کر رکھا ہے جن کے ذریعے یہ مسئلہ استصواب سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کوئی یک طرفہ کارروائی کرے گا تو سب سے پہلے سلامتی کونسل ہی اس کا راستہ روکنے کی کوشش کرے گی۔ یہاں یہ سوال بالکل جائز ہے کہ یہی سلامتی کونسل بھارت کی جارحیت کا راستہ کیوں نہیں روکتی۔ اس کا جواب کسی سے پوشیدہ نہیں ، بھارت ایک بڑا ملک ہے اور وہاں دنیا کو ایک وسیع مارکیٹ میسر ہے۔ امریکہ،یورپ ہی کے نہیں، اسلامی ممالک کے بھی بھارت سے تجارتی مفادات وابستہ ہیں۔ا سلئے دنیا بھارت کو ڈانٹنے کی ہمت نہیں رکھتی۔ اس کے باوجود پاکستان نے بھارت کے حالیہ اقدامات کا جس دلیرانہ طریقے سے جواب دیا ہے۔ اس کی تحسین نہ کرنا زیادتی ہو گی۔ پاکستان نے ظلم کو ظلم کہا،جبر کو جبر کہا، مودی کو دہشت گرد کہا۔ بھارت کو دہشت گرد کہا اور جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کہا۔ وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور یہاں تک خبردار کیا کہ اگر بھاررت کی طرف سے پاکستان پر جارحیت ہوتی ہے تو پھر جان لیجئے کہ یہ جنگ روایتی طریقے کی نہیں ہو گی بلکہ امکان یہ ہے کہ ایٹمی جنگ ہو گی اورا س کے اثرات بر صغیر سے باہر کی سرحدوں تک پھیل جائیں گے۔ اس سے زیادہ پر زور الفاظ اور کون سے ہو سکتے ہیں جو عمران خان نے استعمال نہیں کئے۔ ہمیں یاد ہے کہ بھارت کے سامنے ہمارے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے مکا لہرایا تھا مگر اب عمران خان نے تو ایٹمی جنگ کا خدشہ بھی ظاہر کر دیا۔ اس سے بڑی بات اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ا ب یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔ کیا وہ پاکستان کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے ۔ ہاں وہ کرناچاہے تو کر سکتا ہے مگر جواب میں اس کا وجود بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ ظا ہر ہے کہ مودی کتنا بھی پاگل ہو جائے۔کتنا ہی بائولا کیوںنہ ہو جائے ۔ اگر وہ ایک ہندو ریاست قائم کرنے اور مہا بھارت کے احیا کی خواہش رکھتا ہے تو پھر پاکستان کی طرف میلی آ نکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کر سکے گا۔ ہمارے عوام کو یہ امر ضرور ذہن نشین کر لینا چاہئے اور وہ خاطر جمع رکھیں کہ پاکستان پر کو ئی ا ٓنچ نہیں آ سکتی ۔ بھارت نے پلوامہ کے بعد چھیڑ کر دیکھ لیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ بھارت کو کس طرح منہ کی کھانا پڑی۔ چشم زدن میں اس کے دو جنگی جہاز تباہ ہو گئے ۔ اپناایک ہیلی کاپٹر انہوںنے خود ہی بو کھلاہٹ میںمار گرایا اور بھارت کا ایک ونگ کمانڈر ابھی نندن جنگی قیدی کے طور پر پاکستان کے ہتھے چڑھ گیا۔
دیگ کا ذائقہ ایک دانہ چکھنے سے اچھی طرح ہو جاتا ہے ۔ بھارت نے یہ دانہ چکھ لیا اورا سے نتائج کا اچھی طرح پتہ لگ گیا۔
ہماری مسلح افواج بھی قوم کویقین دہانی کرا چکی ہیں کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گی۔ پاکستان کے دفاع کی جنگ آخری گولی، آخری سانس اور آخری سپاہی تک لڑی جائے گی اور اس عزم کاا ظہار کرنے والی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ وزیر اعظم نے شروع میں ہی واضح کر دیا تھا کہ ان کے سامنے دو ماڈل ہیں۔ ایک بہادر شاہ ظفر کی صورت میں کہ وہ غلامی قبول کر لیں ،سرینڈر کر دیں اور دوسرا سلطان میسور ٹیپو کا جس نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بدرجہ بہتر ہے۔ ایسی فوج ا ورا یسی حکومت کے ہوتے ہوئے جو لوگ خود کشمیر کا مسئلہ حل کرنے چلے ہیں ان سے پوچھا جانا چاہئے کہ کیا ایک قانونی حکومت کی موجودگی میں عوام جہاد کرنے نکل سکتے ہیں، جواب ہے بالکل نہیں ، یہ میں نہیں کہہ رہا۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے اڑتالیس میں کہا تھا کہ قبائلی لشکر کو کشمیر پر یلغار نہیں کرنی چاہئے کیونکہ جہاد کا فریضہ حکومت وقت کے ذمے ہے۔
آج جو لوگ کشمیر کا جہاد کرنا چاہتے ہیں، میںان سے کہتا ہوں کہ وہ پہلے ایسی فضا تو بنائیں کہ دنیا کواس جہاد پر کوئی ا عتراض نہ ہو ، اس وقت تو ایف اے ٹی ایف کی تلوار پہلے ہی ہمارے سروں پر لٹک رہی ہے۔ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی میں کہا کہ سوویت روس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو پاکستان کا کہاں سے فرض بنتا تھا کہ وہ ا س سپر پاور کے خلاف جہاد کرے ۔ اورا سکے بدلے میں ستر ہزارا فغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرے۔ کلاشنکوف اور ہیرو ئن مافیا کو ملک میں دندنانے کی اجازت دے۔ فرقہ واریت کی آگ میں جھلسے۔ سویت روس کے خلاف لڑنا تھا تو خود امریکہ لڑتا۔ اسی طرح نائن الیون کے بعد امریکہ کو کسی سے لڑنا تھا تو خود لڑتا۔ا س نے دبائو ڈال کر پاکستان کو اس جنگ میں جھونک دیا جس نے ہماری معیشت بھی برباد کی ا ورا من و سکون بھی غارت کر دیا۔
اب کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کو حل کرنا ہے۔ اس نے ذمے داری لے رکھی ہے اور ہمیں اگر کوئی جدو جہد کرنی ہے تو سلامتی کونسل کو جگانے کی کرنی چاہئے۔ ہم خود ایک ہجوم لے کر کنٹرول لائن پار کریں گے تو یہ بھارت کو آ بیل مجھے مار کے ،مترادف ہو گا۔ بڑی مثالیں دی جاتی ہیں کہ دیوار برلن کو لوگوں نے توڑا۔ نہیں بھائی کئی عشروں تک دیوار برلن کو جس نے پھاندنے کی کوشش کی وہ مشرقی یا مغربی جرمنی کی فوجوں کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ دیوار برلن تو اس وقت ٹوٹی جب سوویت روس ٹوٹا۔ ہم بھی اگر بھارت کو اندرونی طور پر عدم استحکام کا شکار کر سکیں جو کہ کوئی مشکل کام نہیں۔ بھارت میں صرف کشمیر ہی ایک حل طلب مسئلہ نہیں، وہاں خالصتان کا مسئلہ بھی ہے۔ ناگا لینڈ کا بھی ہے۔ میزو رام کا بھی ۔ تامل ناڈو کا بھی ہے اورممتا بینر جی کی قیادت میں بنگالی بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنی طرف سے دبائو بڑھانا چاہئے اور بھارت کے اندرونی تنازعات اس کو اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیں گے تو کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ حقیقت کا روپ دھار لے گا۔ چھبیس اور ستائیس فروری کو اگر ہم نے جنگ کئے بغیر جنگ جیت لی تھی اوراس پر میں نے تجویز دی تھی کہ وزیر اعظم کو نوبل انعام دیاجائے تو آج یہی وزیر اعظم امن کا راستہ اختیار کر کے بھارت کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا سکتا ہے اور یقینی طور پر امن کا نوبل انعام بھی جیت سکتا ہے۔
بر صغیر میں امن قائم رکھنا جان جوکھوں کا کام ہے
Oct 08, 2019