سری نگر (کے پی آئی/ نوائے وقت رپورٹ) آرٹیکل 370 اے ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں 64ویں روز بھی کرفیو جاری ہے، موبائل فون، انٹرنیٹ سروس بند اور ٹی وی نشریات معطل ہیں۔ تمام دکانیں، کاروبار، تعلیمی ادارے اور ٹرانسپورٹ بند ہیں۔ مقبوضہ وادی میں جبری پابندیاں دسویں ہفتے میں داخل ہوگئیں، کاروبار، دکانیں، انٹرنیٹ مکمل بند ہے، وادی میں انسانی المیہ جنم لینے لگا، شوپیاں، پلواما اور کلگام میں سیب درختوں پر ہی گلنے سڑنے لگے۔ سکول کھلے ہونے کے باوجود کشمیری اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے، بھارتی فوج نے 14 اور 16 سال کے دو لڑکوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا۔ وادی میں تمام سیاسی اور حریت رہنما مسلسل 64 روز سے گھروں اور جیلوں میں نظر بند ہیں۔ دریں اثناء وسطی کشمیر کے جنگلات میں بھارتی فوجی آپریشن 10 ویں روز میں داخل ہو گیا ہے۔ بھارتی فوج کا دعوی ہے کہ مانسبل کے جنگلات میں عسکریت پسند مو جود ہیں۔ اس پہاڑی علاقے میں ہندوستانی پیرا ٹرو پس کوہیلی کاپٹر ز کے ذریعہ اتارا گیا ہے کیونکہ اس علاقے تک کوئی بھی روڈ نہیں جاتی ہے۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق فوج کوخوف ہے کہ عسکریت پسند باندی پورہ ضلع کے علاقے گریزسے جموں وکشمیرمیں داخل ہوگئے ہیں اور وہ اب جنوبی کشمیرکے ترال ضلع کی طرف جانا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر میں ریاستی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ بلاک ڈویلپمنٹ کونسل انتخابات نہیں لڑے گی۔ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ اس لئے لیا گیا کیوں کہ اس کے اعلی قائدین ابھی بھی زیر حراست ہیں۔ پارٹی کے صوبائی صدر، دیویندر رانا نے کہا کہ پارٹی اس وقت تک انتخابات میں حصہ نہیں لے گی جب تک کہ پارٹی کے تمام رہنماؤں کو رہا نہیں کیا جاتا۔ وادی کے لاک ڈاون پر عالمی برادری کی آنکھیں بند ہیں۔ پابندیوں کے باوجود کشمیری نوجوانوں کا حوصلہ پست نہ ہو سکا۔ 5 اگست سے جاری لاک ڈاؤن سے کئی کشمیریوں کی جان لے لی۔ ہسپتال نہ پہنچنے کے باعث درجنوں کشمیری دم توڑ گئے۔ بھارت کے 284 اساتذہ صحافیوں نے وزیراعظم مودی کو خط لکھا ہے جس میں پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی ذرائع معطل اور بیرونی دنیا سے رابطہ منقطع ہے جبگہ جگہ بھارتی فوج کا پہرہ، رکاوٹیں اور خار دار تاریں ہیں۔ کشمیری سرد موسم کیلئے بھی تیاری نہیں کر سکے۔