لاہور+اسلام آباد (خصوصی نامہ نگار+وقائع نگار خصوصی+نوائے وقت رپورٹ) جے یو آئی کے سربراہ اور صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن نے وفد کے ہمراہ گزشتہ روز مریم نواز سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے مولانا فضل الرحمن اور وفد کا خیرمقدم کیا۔ مریم نواز نے کہا کہ فضل الرحمن کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے صدر کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد ہو۔ ہم سب اس فیصلے پر بے حد خوش ہیں۔ عوام بھی اس فیصلے سے بے حد خوش ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں عوام آزادی مارچ کا ولولہ انگیز مرحلہ دیکھ چکے ہیں۔ مولانا ہمارے انتہائی قابل احترام بزرگ ہیں۔ پارٹی صدر شہباز شریف کی گرفتاری کی شدید مذمت کرنے پر فضل الرحمن کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ شہباز شریف کی گرفتاری قومی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ ہے۔ شہباز شریف کو نواز شریف کا بھائی ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ شہباز شریف کو نظریئے‘ آئین‘ عوام کے ساتھ کھڑے رہنے کی سزا مل رہی ہے۔ شہباز شریف ضمیر اور وفا کے قیدی ہیں۔ آپ سب اہل علم ہیں‘ اﷲ نے آپ کو بے پناہ تجربے اور سیاسی بصیرت سے نوازا ہے۔ آئین کی امانت اب اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کی ذمہ داری ہم سب کے کاندھوں پر ہے۔ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ سیاستدان ہیں۔ یہ ذمہ داری بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے عوام کے منتخب نمائندوں کو سونپی تھی۔ پاکستان بنانے والوں کی اس بصیرت کو آئین کہتے ہیں۔ اس عہد کو دستاویز کی شکل پاکستان بنانے والوں نے دی۔ آئین کی پاسداری اور اس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ قائد نواز شریف محافظ دستور بن کر سامنے آئے ہیں۔ عوام سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا کہ وہ اپنے نمائندے خود منتخب کریں۔ یہ فیصلہ عوام کریں گے کہ وہ اپنا قائد رہنما اور وزیراعظم کسے بنائیں۔ اﷲ تعالیٰ نے قیادت منتخب کرنے کا حق اپنے بندوں کو دیا ہے جو ووٹ کی صورت میں استعمال کرتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ ہو گا کہ عوام ہی اس ملک کے فیصلے کریں گے۔ آج معیشت تباہ ہے۔ عوام تاریخ کی بدترین مہنگائی کا شکار ہیں۔ آٹا‘ چینی‘ خوراک‘ بجلی‘ گیس ہر چیز مہنگی ہے جس نے عوام کا جینا حرام کر دیا۔ تعلیم اور صحت تو دور کی بات ہے‘ دو وقت کی روٹی سے عوام محروم ہیں۔ آج خارجہ پالیسی کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ آزاد کشمیر کے منتخب وزیراعظم پر لاہور میں غداری کا مقدمہ درج ہوا۔ یہ کشمیریوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ میڈیا کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ نیب‘ ایف آئی اے اور دیگر اداروں کی طرح پیمرا کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان اوچھے ہتھکنڈوں کا ایک ہی مطلب ہے کہ سچ کوئی نہ بولے‘ کوئی سر نہ اٹھائے‘ حق بات نہ کرے۔ ہم آئین‘ جمہوریت‘ شہریوں کے حقوق‘ مہنگائی‘ معیشت کی تباہی پر خاموش نہیں ہوں گے۔ سقوط کشمیر‘ سیاسی مداخلت‘ ووٹ‘ آٹا‘ چینی ‘ دوائی چوری پر خاموش نہیں ہوں گے۔ ظلم ‘ فسطائیت اور آمریت کے یہ ضابطے ہم نہیں مانتے۔ عوام پی ڈی ایم کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ انہیں اور اس وطن کو اس عذاب سے نجات دلائی جائے۔ سلیکٹڈ عوام دشمن حکومت سے نجات ہی ملک و قوم کیلئے سب سے بڑا ریلیف ہو گا۔ آپ کی مخلص‘ دوراندیش قیادت میں پی ڈی ایم عوام کو ان کا حق دلانے میں تاریخی کردار ادا کرے گی۔ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مریم نواز کی دعوت کا انتہائی مشکور ہوں۔ موجودہ حکومت نااہل اور نالائق ثابت ہوئی۔ پاکستان کی تمام اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر کھڑی ہے۔ حکومت دو سال کی کارکردگی پر نااہل اور نالائق ثابت ہوئی۔ اس حکومت نے پاکستان کی معیشت کو زمین بوس کر دیا۔ مہنگائی‘ بے روزگاری کے باعث لوگ خودکشی پر مجبور ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے حوالے سے مشاورت ہوئی ہے۔ احسن اقبال دیگر جماعتوں کے رہنماؤں سے رابطہ کریں گے۔ پی ڈی ایم تحریک کا آغاز 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ جلسے سے ہو گا۔ پی ڈی ایم کا 23 اکتوبر کو کوئٹہ میں جلسہ ہوگا۔ پاکستان میں آئین کی عملداری اور جائز حکومت پاکستان کو دینا چاہتے ہیں۔ مریم نواز نے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ایک بڑی تحریک ہے۔ پی ڈی ایم ووٹ کی عزت اور ووٹ کی حرمت کے دفاع کی موومنٹ ہے۔ پاکستان میں میڈیا‘ عدلیہ اور اداروں پر دباؤ کا مقدمہ پی ڈی ایم لڑے گی۔ پی ڈی ایم ووٹ کی چوری کا مقدمہ لڑے گی۔ نواز شریف نے تقریر کی تو کہا کہ بھارت کی زبان بولی گئی۔ بھارت خوش ہو رہا ہے۔ بھارت پاکستان کے آئین کی بات کرنے پر خوش نہیں ہوتا۔ پاکستان کی معیشت کا دیوالیہ نکلتا ہے تو بھارت تب خوش ہوتا ہے۔ بھارت اس دن خوش ہوتا ہے جب سقوط کشمیر ہوتا ہے۔ بھارت تب خوش ہوتا ہے جب ووٹ چوری ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں ہزاروں سرکاری ملازمین نے احتجاج کیا۔ بلاول بھٹو کو گوجرانوالہ جلسے کی دعوت دوں گی۔ ابھی تو جلسے شروع نہیں ہوئے اور پوری انتظامیہ کو تبدیل کر دیا گیا۔ جتنی مرضی انتظامیہ تبدیل کر لیں جلسے کامیاب ہوں گے۔ نواز شریف کو محب وطن ثابت کرنے کیلئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ حکومت بے ساکھیوں پر کھڑی ہے۔ اپنے وزن سے خود گرے گی۔ ملک کا حکمران کون ہو گا‘ فیصلہ عوام کرے گی۔ سوال وہ پوچھا کریں جس کا بوجھ چینل اٹھا سکیں۔ نواز شریف کہیں نہیں گئے وہ علاج کروا کر واپس آئیں گے۔ نواز شریف کے کارکن اور بیٹی یہاں موجود ہے۔