پاکستان اورچین کے مابین تذویراتی شراکت مثالی ہے‘ اس لئے کہ یہ شراکت‘انسانی رشتوں کی گہرائی اوروسعت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔
یہ1980ء کی دہائی کی بات ہے جب ثقافتی انقلاب کے بعد چین نے ایشیا پیسیفک کے خطے اوراس سے آگے تک بغیر کسی شرائط کے اقتصادی تعاون کی پالیسی کا اعلان کیا۔ چین کے اس ا قدام کا مقصد خطے کے استحکام و یکجہتی اور امن کے قیام کیلئے موزوں عالمی نظام کی راہیں استوار کرنا تھا ۔ریاستی پالیسی کی تشریح کیلئے اقتصادی تعاون کونسل (SCO) کا قیام عمل میں لایا گیا جو اب وسعت اختیار کرکے اقتصادی تعاون کیلئے مضبوط ادارہ جاتی بنیادکی صورت اختیار کر چکا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے دوران پاکستانی مسلح افواج Armed Forces War College کے تعلیمی ادارے کے تربیت یافتہ پیشہ ور افسران فوج کے اہم عہدوں پر تعینات تھے جو ہماری مستقبل کی جنگ اور سلامتی کے تقاضوں کا تجزیہ کرنے اوراعلی تکنیکی ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان کی رسد کیلئے باقاعدہ عسکری نظام وضع کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ایک سال کے مختصر عرصے میں انہوں نے مسلح افواج کیلئے ایک جامع ماڈرنائزیشن پروگرام مرتب کر لیا جوسال 2000ء اور اس سے بھی آگے تک سلامتی کیلئے درکار تمام ضروریات کا احاطہ کرتا تھا۔
1982ء کے آغاز میں ہم نے منصوبے کے مطابق اعلی تکنیکی ہتھیاروں‘ عسکری سازوسامان اور ٹیکنالوجی کی تلاش کے کام پر عمل درآمد شروع کیا اور پہلے امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس ‘ اٹلی اورجرمنی کی مارکیٹوںکا رخ کیا جہاں ہمیں اپنی مرضی کے مطابق کچھ ہتھیار ملے لیکن وہ ممالک ان ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی دینے کو تیار نہیں تھے تاکہ ہمیںان ہتھیاروں کے بنانے کی مہارت حاصل ہو سکے۔ بالآخر ہم نے مطلوبہ سامان کی تلاش کیلئے چین کا پہلا دورہ کیا ۔پہلی ملاقاتمیں ہم نے اپنے مطلوبہ سامان کی فہرست پر اپنے دستیاب وسائل یعنی 600 ملین ڈالر کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کی اور ہمیں تسلی بخش جواب ملا۔ ہمیں بتایا گیا کہ معاملات کو حتمی شکل دینے کیلئے ہم چار ہفتوں بعد دوبارہ چین آئیں- اگلے ماہ ہم پھر چین جا پہنچے جہاں ہمارا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا اور ہمیں ایک کانفرنس روم میں لایا گیا جہاں سول کپڑوں میں ملبوس متعدد چینی بزرگ ہستیاںہماری منتظر تھیں- ہم نے اپنے میزبان سے پوچھا:
’کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ آپ ہمیں غلط جگہ پر لے آئے ہیں؟’’نہیں‘ بلکہ ہم آپ کو اپنی دفاعی پیداواری کمپنیوں کے سربراہوں سے ملاقات کیلئے یہاں لائے ہیں جو بتا ئیں گے کہ ایکے پاس آپ کو دینے کیلئے کیا کچھ ہے اور کب تک وہ آپ کومطلوبہ سامان حرب دے سکیں گے-‘‘ہمیں اطمینان ہوا اور اجلاس شروع ہوا- سامان کی فہرست جو ہم نے گذشتہ ماہ ان کے حوالے کی تھی اس پر بات چیت کرنے میںایک گھنٹہ لگا اور وہ ہمارا تمام مطلوبہ سامان بمعہ ٹیکنالوجی بغیر کسی پیشگی شرط کے دینے پر رضا مند ہو گئے- ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور پیشتر اسکے کہ میٹنگ ختم ہوتی‘ ہمارے میزبان نے پوچھا: ’’کیا آپ کو یہی کچھ چاہیئے تھا یا کچھ اور بھی ہے؟‘‘ میں نے جواب دیا : ’’ہمیں چاہیئے تو اور بھی بہت کچھ لیکن ہمیں اپنے وسائل کے اندر رہ کر خریداری کرنی ہے‘ یعنی 600 ملین ڈالر‘ جو ہمیں فراہم کئے گئے ہیں-‘‘ ’’ٹھیک ہے‘ لیکن ہم آپ کے مطلوبہ سامان کی فہرست دیکھنا چاہیں گے-‘‘ میں نے فہرست نکالی اور ایک ایک آئٹم پر بات شروع ہوئی- ہمارے چینی دوستوں نے ہر مطالبے کو خوش دلی سے قبول کیا لیکن جب حساب کتاب کیا گیا تو معاملہ 1.7 بلین ڈالر تک جا پہنچا اور حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ قیمتیںعالمی مروجہ قیمتوں سے کم از کم دو سوفیصد ارزاں تھیں۔ میں نے کہا: ’’ہم اتنی بھاری رقم کیسے ادا کریں گے؟‘‘ ہمیں جواب ملا: ’’آپ اپنی سہولت کے مطابق جیسے چاہیں آئندہ پچیس برسوں میں ادائیگی کریں-‘‘
(اس رقم کی آخری قسط 2007ء میں ادا کی گئی)
ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی اور پورے اعتماد کے ساتھ وطن واپس لوٹے اور کامیابی کی داستان چیف آف آرمی سٹاف اور ساتھیوں کو سنائی-ہماری خود انحصاری کے حصول کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے جب فوج میں ٹیکنالوجی کی منتقلی‘ خودانحصاری‘ اسلحہ سازی کے نظام کی وسعت‘ ہتھیاروں اور میزائل کے نظام کی ترقی اور ملکی سطح پر انجنیئرنگ کے شعبہ کی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوا‘ جس کی بدولت ایک دہائی سے بھی کم مدت میں ہم نے بھرپور صلاحیت حاصل کر لی- جہاں مشکل پیش آئی وہاں عظیم سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر قیادت ماہر سائنسدانوں کی ایک بڑی جماعت موجود تھی جو ہر پروگرام کو احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچاتی رہی-اسی دوران ہمارے اہم جنگی ٹینک الخالد کی کارکردگی اور صلاحیت کا امتحان اگست1988ء میں ہواجس نے امریکہ کے اہم جنگی ٹینک M1A1کو مات دے دی۔اس طرح دس سالوں کے قلیل عرصے میں پاکستانی فوج جدید طورپر مسلح ہو چکی تھی۔
1989ء کے اختتام پر خطے کی سب سے بڑی فوجی مشقیں ’’ضرب مومن‘‘ منعقد کی گئیں تاکہ نئی مرتب کردہ حکمت عملی‘ عسکری تنظیمی ڈھانچے کی ترقی‘تکنیکی نظریے اور جارحانہ دفاع کی صلاحیتوں کو عملی طور پر جانچا اور پرکھا جا سکے۔ان مشقوں کے انعقاد کو شفاف بنانے کیلئے ذرائع ابلاغ (Social Media)کو ساتھ رکھا ۔ مشقوں میں ایک سو(100) نوجوان جرنلسٹوں کو تمام فارمیشنوں اور یونٹوں کے ساتھ ٹھہرایا گیا تاکہ وہ جنگ کی سختی کا عملی مشاہدہ کر سکیں کہ ایک سپاہی کواس قسم کی مشقوںکے دوران کن کن سختیوں اور کٹھن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ان مشقوں کو بھارت سمیت تئیس (23) دوست ممالک کے عسکری وفود نے دیکھا۔ ایک کھلی کتاب کی طرح پاکستانی قوم اور ساری دنیانے ہماری عسکری صلاحیتوں کا مشاہدہ کیا۔چین کے ساتھ مثالی تعاون اورمنفردتذویراتی شراکت نے ہمارے ماہر ہنرمندوں کوشعور عطا کیا جس کی وجہ سے 1995-96ء کے عرصے میں پاکستانی فوج اعلی تکنیکی ہتھیاروں‘ عسکری سازوسامان اور بارود تیار کرنے کے میدان میںنوے فیصد تک خودانحصاری حاصل کر چکی تھی اورہماری جنگ لڑنے کی صلاحیت چالیس دن تک جا پہنچی تھی۔پاکستان نیوی جنگی جہاز (Frigates) اور سب میرین خود تیار کرنے کے قابل ہوگئی اور ہماری فضائیہ نے سپر سونک(Super Sonic) میزائلوں اور متعدد خوبیوںکے حامل طیارے جے ایف ۱۷ تھنڈر(JF-17 Thunder) تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ۔
ان کامیابیوں کے سبب ہمیں دنیا کی بہترین افواج میں شامل ہونے کا اعزاز نصیب ہوا جوایشیا پیسیفک کے خطے میں امن اور استحکام کیلئے سی پیک اور بی آر آئی (Belt and Road Initiative)جیسے منصوبوںکی بنیاد ہے۔قوموں کی برادری میںایک باوقار قوم کی حیثیت سے ابھرنے کا ہمارا خواب چین کے ساتھ مثالی تذویراتی شراکت کے طفیل سچ ثابت ہواہے۔