اسلام آباد (عترت جعفری )وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کو سینٹ کا رکن بنانے کیلئے صوبے کے انتخاب میں گوں مگوں اور فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے ان کو ’’وزیر‘‘ رہتے ہوئے سینٹر بنوانے کا ارادہ پورا نہیں ہو سکے گا ،اس کا امکان بہت ہی کم رہ گیا ہے کیونکہ وہ ملک کے کسی صوبے سے بھی سینیٹر بنیں ،مستعفی رکن کی نشست پر دوبارہ الیکشن کے لئے 30دن کے اندر دوبارالیکشن ہو گا ،تاہم یہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ وہ اس معیاد میں کمی کر سکتا ہے ،شوکت ترین کی منتخب ایوان کا رکن رہے بغیر وزیر رہنے کی مدت18اکتوبر کو مکمل ہو جائیگی ،اس میں صرف دس روز باقی ہیں اور حکومت اب تک اس بات کا حتمی اعلان نہیںکر سکی ہے کہ شوکت ترین کو کس صوبے سے سینیٹر منتخب کرانا ہے ،پہلے پنجاب اور اب کے پی کے کی بات کی جارہی ہے،ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی کی قیادت کے درمیان ’’کلوز ڈور ‘‘میں ہونے والی مشاورت میں مشورہ دیا گیا ہے کہ شوکت ترین کو پنجاب کی بجائے کے پی کے سے سینیٹر بنوایا جائے جو محفوظ رہے گا ،واضح رہے کہ اسلام آبا میں یوسف رضا گیلا نی نے سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو ہرا کر پہلے سینیٹر اور اب قائد حزب اختلا ف بن چکے ہیں ، شوکت ترین کو 18اکتوبر کو دوبارہ مشیر خزانہ بنانا پڑے گا ، جس کی وجہ سے وہ اقتصادی رابطہ کمیٹی ،این ایف سی سمیت مختلف فورمز کی سر براہی نہیں کر سکیں گے ،یہ معاملہ ایسے اس وقت سامنے آ رہا ہے جب ان کو اسی مہینے کے وسط میں واشنگٹن سے آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی مشترکہ اجلاس میں شرکت کی دعوت ہے اور ان کا امریکہ جانے کا ارادہ بھی ہے تاکہ وہ آئی ایم ایف کیساتھ پروگرام کے ایشو پر براہ راست بات کر سکیں ،زارئع نے بتایا ہے کہ ان کے بارے میں اب کے پی کے سے سینیٹر بنوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے لئے ابھی ان سینیٹر کو نام سامنے نہیں آیا ہے جن کو مستعفی ہونے کے لئے کہا جائے گا ،شوکت ترین کو پہلے مرحلہ میں کے پی کے کا شناختی کارڈ بنواناپڑے گا جس میں وہاں کا ایڈریس درج ہو گا ، جس کے بعد ان کا نام کے پی کے کی انتخابی فہرست میں شامل ہو سکے گا ،سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے رابطہ پر بتایا کہ شوکت ترین کو سینیٹرکہیں سے بھی منتخب کرایا جائے اس میں دشواریوں کا سامنا رہے گا ۔