آن لائن کا سفر

Oct 08, 2021

ڈاکٹر سعدیہ بشیر


 چاند پر انسان کے قدم رکھنے کے مفروضے بھی اتنے پرانے نہیں ہوئے تھے کہ دنیا آہستہ آہستہ گلوبل ویلج بن گئی اور پہلے والے بحر اوقیانوس اور کالا پانی نے بھی قریب تر ہونے کی کوشش یوں کی کہ کالا پانی خون میں شامل ہو کر طرح طرح کے سنگین مسائل میں ڈھل گیا اور سمندر‘جزیرے اور انسان آن لائن سفر کے عادی ہو گئے۔جب چاہا پلک جھپکتے ہی دنیا کے کسی بھی کونے میں۔پڑاو کیا اور ایک لمحے میں واپسی ہوئی۔ اس سفر کی نشانیاں ویڈوز اور تصاویر کی صورت پائی جاتی ہیں .غالب نے شاید اسی لیے کہا تھا .
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا 
 آن لائن سفر میں فائدے اور نقصان کا تناسب برابر رہا .آن لائن فراڈ‘ بلیک میلنگ ‘ سکرین شاٹس اور پھر ان کی ایڈیٹنگ اسی سفر کے ذریات ہیں۔
اس سفر میں رہزن زیادہ ہیں اور رہنما بہت ہی کم۔ پہلے بچے شرارت میں کسی گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ جاتے تھے۔ اب اسے ان باکس میسیج اور بلاکنگ کا نام دیا جاتا ہے۔ رسائی عام ہونے سے کسی کا نام بگاڑنے ‘ رستہ روکنے‘اسے گالیاں دینے‘ نیچے گرانے اور لمحہ بھر میں زندگی بدل دینے کیلئے سوشل میڈیا پر پوسٹ اور ویڈیو ہی کافی ہے۔پس پردہ عناصر پر کسی کی نظر تک نہیں۔ جاتی اور شر پسند دندناتے پھرتے ہیں۔ غیر اخلاقی رویوں کو مزاح نگاری بلکہ پھکڑ پن کے پردے میں لپیٹ کر یوں ہنسایا جاتا ہے کہ اصل مفہوم پر نظر تک نہیں جاتی اور یوں غیر اخلاقی رویوں کی ترویج کی جاتی ہے۔صفات اور اقدار کی گنتی اب پرانی بات ہو چکی ہے ۔زمانے کے انداز یوں بدلے کہ راگ و ساز بھی مصنوعی آوازوں میں ڈھل چکے ہیں۔ اب فن کسی کی میراث نہیں رہا۔ فن و ہنر چھپتا پھر رہا ہے اور فن کار دھمال میں مگن ہیں۔تصدیق و تحقیق کو دفنا کر جھوٹ کے بچھو اور سانپوں سے جس کو چاہیں ڈسوا دیں ‘جس کو چاہیں زہر آلود کر دیں۔ مردوں کے منہ میں زندوں کی زبان ڈال کر جو بھی کہلوائیں ‘جیسی تصویر بنا دیں ۔ ہجوم اسے پوجنے لگتا ہے محقق کا چیخ چیخ کر گلا بیٹھ گیا ہے لیکن اسکی آواز تک سنائی نہیں دیتی ۔اقبال نے کہا تھا …؎
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں.کو گنا کرتے ہیں , تولا نہیں کرتے
یہ رویہ سوشل میڈیا کا ٹرینڈ بن چکا ہے ۔ beauty Instant اب کیلئے بیوٹی پارلر کی نہیں فلٹرز کی ضرورت ہے۔ناپ تول میں کمی digital بن گئی ہے ۔آن لائن مقابلے میں شرکت سے زندگی کی رفتار روشنی کے مقابل محو سفر ہے ۔زندگی کا ہر پہلو آن لائن منتقل ہو چکا ہے۔یہاں وہی کامیاب ہے جو جتنا تیز رفتار ہے۔ 
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا کچل گئے ہیں 
سپر سٹورز تک کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔آن لائن مگر مچھ زمینی چھوٹی مچھلیاں نگلتے جا رہے ہیں۔ یعنی دوڑو زمانا چال قیامت کی چل گیا۔ ہر روز کا نیا پن پرانے دنوں کی یادوں کو بھی آن لائن منتقل کرنے میں مشغول ہے اور اپنے ہونے کے ثبوت دے رہا ہے۔ یہ چینی کہاوت دائمی سچ ہے کہ جھوٹ ساری دنیا کا سفر طے کر لیتا ہے اور سچ ابھی تسمے باندھ رہا ہوتا ہے۔ تسمے باندھتا سچ چھوٹے کاروبار اور دکانوں میں سر جھکائے بیٹھا ہے اور ہم اپنا وقت بچانے کیلئے کتنے ہی لوگوں کی خوشیوں اور ضرورتوں پر نظر تک نہیں ڈالتے۔ کچھ چیزیں تکلیف دہ ہیں لیکن ان کا مداوا ممکن نہیں۔ اڑنے والے پرندے اب زمین پر اتریں گے تو ڈار سے بچھڑ جائینگے۔ وقت بچانے کیلئے یہ شارٹ کٹ ہماری سستی میں ڈھل رہا ہے۔مضحمل ‘ تھکے ماندہ ‘ پثرمردہ انسان آن لائن جتنے بھی تازہ دم دکھائی دیں لیکن زندگی خراج لے رہی ہے 50 فیصد حاضری میں تھکے سے طالب علم ہوں یا گھروں میں قید گلوبل ویلج پر اڑتے مسافر ہوں۔یہ سب بہت سے جسمانی ‘ روحانی اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہیں اورآن لائن وظیفوں کے سحر میں مبتلا۔ یہ زینہ بہ زینہ کلک پر کھلتی ویب سائٹس اپنے نفع کے خمار میں ہیں۔ جاہل اور غریب عوام کو بے وقوف بناتے پیر بھی آن لائن ٹرانسفر ہو چکے ہیں۔ ان مکڑی کے جالوں میں روز کتنی ہی مکھیاں بھنبھناتی ہیں لیکن رہائی ممکن نہیں۔ تدبر و فہم بہر حال اہم ہے اور ہر اٹھائے جانے والے قدم کیلئے بصارت بھی ۔آن لائن سفر میں ایک توازن درکار ہے ۔دیانت و امانت کی بھی ضرورت ہے اور اپنے قدم زمین پر جمائے رکھنے کی بھی کہ آخر یہ ہی تو ہماری اصل ہے ۔

مزیدخبریں