اللہ کا واسطہ ہے چند ٹکوں کی خاطر نفرتیں نہ بڑھائیں کہ محرومیاں ، ناانصافیاں بالآخر نفرت میں تبدیل ہو ہی جایا کرتی ہیں اور نفرت کا راستہ اکثر اوقات انتقام جیسے انتہائی قدم کو اپنا لیتا ہے ۔ آج ڈیرہ غازی خان سے ایک غریب بلوچ کا مجھے فون آیا وہ ایک مثبت سوچ رکھنے والا شخص ہے ان کا جب بھی فون آتا ہے وہ کوئی نہ کوئی مفید بات ہی کرتے ہیں ۔ مگر ان کا یہ ٹیلی فون گریہ زاری سے بھرا پڑا ہے ۔ کہنے لگے ملتان میں کوئی اچھا ماہر نفسیات ہے تو بتائیں ۔ ماتھا ٹھنکا کہ انتہائی مثبت سوچ کے حامل اس شخص کو آخر ماہر نفسیات کی کیا ضرورت پیش آگئی؟ ڈرتے ڈرتے پوچھا کہ خیر ہے کہنے لگے آپ کے علم میں ہے میرے بچے کتنے لائق ہیں۔ میں نے غربت میں اپنی ساری توانائیاں انہیں پڑھانے پر لگادیں ، میری بیٹی جس کے میٹرک میں1052 نمبر تھے مگر اسے ایم کیٹ کے انٹری ٹیسٹ میں فیل کردیا گیا ہے ۔ جس دن سے وہ فیل ہوئی ہے ،شدید ڈپریشن کا شکار ہے وہ اتنی قابل تھی کہ گزشتہ چھٹیوں میں ضد کرکے میرے ساتھ لاہور اور ملتان گئی کہ میں نے کنگ ایڈورڈ اور نشتر میڈیکل کالج دیکھنا ہے مجھے جہاں پڑھنا ہے وہ کالجز تو پہلے دیکھ آؤں۔ اسکے سارے خواب چکنا چور اور اسکی تمام خواہشات کا قتل کردیا گیا۔ رندھی ہوئی آواز میں کہنے لگے ہمارے ڈیرہ غازی خان کے بچوں کو کیا پتہ کہ Tab کس بلا کا نام ہے ، جب انکے باپ کے پاس سادہ ساموبائل ہوگا تو انہیں کیا معلوم کہ سمارٹ فون کیسے استعمال کیا جاتا ہے ۔ وہ بلوچ مسلسل گریہ زاری کررہا تھا اور بتا رہا تھا کہ جس دن سے انکی بیٹی فیل ہوئی ہے میں اورمیری بیوی ساری ساری رات جاگ کر اپنی بیٹی پر پہرہ دے رہے ہیں کہ وہ مزید دلبرداشتہ ہوکر اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے ۔آپکا اس موضوع پر لکھا ہوا کالم میں نے پڑھا۔ خدا کیلئے اس موضوع پر مسلسل لکھیں کہ پہلے سے محروم اور مظلوم پسماندہ علاقوں کے رہائشیوں کے پاس تعلیم ہی واحد ہتھیار ہے اگر وہی چھین لیا جائے تو ہم کیا کرینگے ۔
اس بلوچ کی باتیں سن کر مجھے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں اپنے بڑے بھائی کے بیچ میٹ سلیم خان تونسوی یاد آگئے وہ میپکو سے غالباً سپرنٹنڈنٹ انجینئر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اس وقت یو ای ٹی میں لاہور ، ملتان اور فیصل آباد کے بعد سب سے زیادہ تعداد پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل تونسہ کے طلبہ کی ہوتی تھی ۔تب مجھے یہ علم بھی نہ تھا کہ تونسہ ہے کہاں ؟مگر سلیم خان تونسوی کے حوالے سے تونسہ کا پہلا تعارف ہوا تھا ۔وہ بڑے فخر سے بتایا کرتا تھا کہ پاکستان کی صف اول کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں سب سے زیادہ تعداد تونسہ کے طلبہ کی ہوتی تھی ۔ لیکن قابل توجہ بات یہ ہے کہ تب طلبا کے سروں پر انٹری ٹیسٹ کاظلم نازل نہیںہوا تھا ۔ میرا شکوہ انٹری ٹیسٹ کو متعارف کروانے والے سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف تھا، مگر اب اس ٹیسٹ کے ظلم کو جاری رکھنے والے تونسہ ہی کے موجودہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی آپ اپنے علاقے کے طلبہ پر یہ ظلم جاری رکھنے میں برابر کے شریک کیوں بن رہے ہیں ۔ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ تحصیل تونسہ کے طلبہ کس غربت و عسرت میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جناب وزیر اعلی دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا کوئی غریب اور وسائل کی کمی کا شکار تونسہ کا بچہ ایف ایس سی اور انٹری ٹیسٹ کے امتحانی سنٹرز خریدنے کی سکت رکھتا ہے۔ ویسے تو آپ ہر وقت سابق وزیراعلی کی پالیسیوں کے سب سے بڑے نقاد ہیں پھر اس پالیسی کو کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں ؟ آخر ایسی کونسی مجبوری آڑے آرہی ہے ۔ ڈی جی خان کے قبائلی علاقے میں بارڈر ملٹری پولیس کو ختم کرکے وہاں کا سارا انتظام پنجاب پولیس کے سپرد کرنے کے حوالے سے وفاقی حکومت کے فیصلے پر عملدرآمد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آپ نہیں تو اور کون ہے ؟ آپ اتنا بڑا فیصلہ رکوا سکتے ہیں تو پھر اپنے ہی خطے کے بچوں کو ان کا حق کیونکر نہیں دلوا سکتے ۔
بات ہورہی تھی سلیم خان تونسوی کی ، میرے اس دور میں کیے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقے میں اتنی غربت کہ ہمارے پاس پڑھائی کے علاوہ دوسرا کوئی آپشن بھی نہیں ہے ۔ نہری پانی کا وجود نہیں ، پہاڑوں سے آنیوالا سیلابی پانی رود کوہی ہرسال سیلاب کی صورت میں آکر ہزاروں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصل تباہ کردیتا ہے ۔اب سوال یہ ہے کہ تمن بزدار، بارتھی ،ڈیرہ غازی خان ،تونسہ ، جام پور، راجن پور، روجھان ، کروڑ لعل عیسن ،کوٹ ادو، تربت ، خاران ، آواران ، بارکھان ، کوہلو ، ژوب، رکنی، میختر، لورالائی ، ٹھل ، کشمور، ڈیرہ بگتی اور ڈیرہ مراد جمالی جیسے سینکڑوں پسماندہ علاقوں کے بچے ایم کیٹ کے انٹری ٹیسٹ میں کیسے Tab استعمال کرسکتے ہیں ؟اس کالم کو لکھنے کیلئے میں نے درجنوں لوگوں سے رابطہ کیا ہر کسی نے یہی جواب دیا کہ ہمارے بچوں نے Tab پہلی بار دیکھا ہے انہیں تو اسے آن آف کرنا بھی نہیں آیا۔
پھر پاکستان کے مستقبل کے یہ دشمن پی ایم سی کے ارباب اختیار کو کیا اس بات کا علم نہیں کہ جن علاقوں کا اُوپر ذکرکیا گیا ہے ان علاقوں میںانٹرنیٹ کی بہترین سپیڈ تو درکنار وہاں تک اس کا رسائی ہی ناممکن ہے ۔ ٹھیکہ پہلے لیکر دس دن بعد اپنی رجسٹریشن کروانے اورمیڈیکل ٹیسٹ لینے والی اس کمپنی کے ٹھیکیداروں کو پاکستان کے مستقبل کی تباہی کا ٹھیکہ لیتے وقت یہ تو علم تھا کہ فیس میں یک جنبش قلم چار گنا اضافہ کرکے اسے 1500 سے 6 ہزار کرنا ہے تاہم وہ اس بات سے لا علم تھے کہ پسماندہ علاقوں کے بچے Tab استعمال نہیں کرسکیں گے یہ کیسے ممکن ہے ؟
جناب وزیراعظم آپ نے وزارت پٹرولیم سے اپنے دو مشیروںکو ملٹی نیشنل پٹرولیم کمپنیز کی سہولت کاری کے الزام میں انکے عہدوںسے ہٹایا ہے ۔ا ول الذکر ندیم بابر اور انکے بعد تابش گوہر ، وہ تو چند کمپنیوں کے ہاتھوں کھیلے اور انہوں نے قوم کو زیادہ سے زیادہ پچاس، ساٹھ ارب کا نقصان پہنچایا ہوگا لیکن ایم کیٹ کی آڑ میں جوخاموشی سے قوم کے مستقبل سے کھیل گئے ، ان کے بارے آپکی گہری خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس خطے میں سو سال سے زائد عرصہ حکومت کرنیوالے انگریز نے جتنا یہاں کی قوموں کی نفسیات کو سمجھا ہے شاید ہی کسی نے سمجھا ہو ۔ بلوچ کے بارے میں انگریز وں نے بارہا ایک ہی جملہ لکھا کہ بلوچ کو دوست بنا کرتو جیتا جاسکتا ہے اس سے لڑا نہیں جاسکتا، انگریز تو بلوچی نفسیات سمجھ گئے مگر پاکستانی اربابِ اختیار اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ابھی تو بلوچستان کی صورتحال کنٹرول نہیں ہوپارہی ، آپ جنوبی پنجاب کے بچوں کے مستقبل سے کھیل کر ایک اور بلوچستان کی بنیاد کیوں رکھنا چاہ رہے ہیں ؟
جناب سردار احمد خان عثمان بزدار صاحب آپ خود بلوچ بھی ہیں اور اپنے قبیلے کے سردار بھی ۔ میری اس کالم میں کی گئی گزارشات کو آپ سے بہتر کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا ۔ خدارا اب تو گھر کو آگ لگانے کیلئے گھروں کے ہی چراغوں کا استعمال ختم کروادیں ۔