جناب مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری!

Oct 08, 2021

اثر چوہان


معزز قارئین ! عظیم و کبیر اِنسانوں کو صرف اُنکی سالگرہ یا یوم وِصال پر ہی نہیں بلکہ کسی بھی وقت یاد کِیا جاسکتا ہے ۔ ’’مفسرِ نظریہ ٔ پاکستان‘‘ اور تحریک پاکستان کے نامور مجاہد جنابِ مجید نظامی 3 اپریل 1928ء کو پنجاب کے علاقہ سانگلہ ہِل میں پیدا ہُوئے اور 26 جولائی 2014ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے ۔ موصوف جب تک اِس دارِ فانی میں رہے ،مصّور ِ پاکستان علاّمہ محمد اقبال بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناح کے افکار و نظریات کے مطابق پاکستان کو ڈھالنے میں مصروف ِ جدوجہد رہے ۔ خرابی ٔ صحت کے باعث مَیں بروقت ،جنابِ مجید نظامی کے اعزاز ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے واقعہ کو یکم اکتوبر کو قلم بند نہیں کر سکا لیکن زندہ و جاوید شخصیات کے اہم واقعات تو زندہ ہی رہتے ہیں ۔ 
’’ زندہ رہیں گے مجید نظامی! ‘‘ 
جنابِ مجید نظامی کے وِصال پر مَیں نے جو نظم لکھی اُس کا صرف ایک شعر پیش کر رہا ہُوں … 
 رَواں ہے ، چشمۂ نُور کی صُورت
ہر سُو اُن کی ذاتِ گرامی!
جب تک پاکستان ہے زندہ
زندہ رہیں گے مجید نظامی!
معزز قارئین! یکم اکتوبر 2012ء کو پنجاب یونیورسٹی میں منعقدہ عظیم و اُلشان تقریب میں پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے ( اُن دِنوں ) وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے جناب مجید نظامی کو "Doctorate" کی اعزازی ڈگری پیش کرنے کا اعزاز حاصل کِیا ۔ تقریب میں مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین (اُن دِنوں ) وائس چیئرمین ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد ( اب مرحوم ) سینئر صحافی مجیب اُلرحمن شامی سیّد فصیح اقبال ( اب مرحوم ) پروفیسر ڈاکٹر مجاہد علی منصوری کرنل (ر) سیّد امجد حسین( اب مرحوم) سینئر اساتذہ یونیورسٹی کے طلبا اور مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے ( خواتین و حضرات ) موجود تھے ۔ 
مَیں نے1960ء میں مسلک صحافت اختیار کِیا، جب مَیں گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ’’بی اے فائنل ‘‘ کا طالبعلم تھا۔ پھر فروری 1964ء میںجنابِ مجید نظامی نے مجھے سرگودھا میں ’’ نوائے وقت‘‘ کا نامہ نگار مقرر کِیا۔ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں (قائداعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح فیلڈ مارشل صدر محمد ایوب خان کے مقابل تھیں جنابِ مجید نظامی نے محترمہ کو ’’مادرِ ملّت ‘‘ کا خطاب دِیا۔ اُن دِنوں بھی مَیں نے سرگودھا ڈویژن میں مادرِ ملت کے کئی جلسوں میں شرکت کی۔
’’مادرِ ملّت سے ملاقات ! ‘‘ 
معزز قارئین!صدارتی انتخاب سے پہلے ضلع سرگودھا میں مادرِ ملّت کی انتخابی مہم کے انچارج تحریک پاکستان کے (گولڈ میڈلسٹ) کارکن قاضی مُرید احمد مجھے اور میرے صحافی دوست تاج اُلدّین حقیقتؔ کو ،مادرِ ملّت سے ملاقات کیلئے لاہور لائے تو اُسی وقت میری تحریکِ پاکستان کے دو کارکنان ،لاہور کے مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری (موجودہ چیئرمین پیمرا پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کے والد صاحب)پاک پتن شریف کے میاں محمد اکرم طورؔ (اردو ، پنجابی کے نامور شاعر اور ’’نوائے وقت‘‘ کے سینئر ادارتی رُکن سعید آسیؔ کے والد صاحب ) سے ملاقات ہُوئی ، دونوں حضرات سے میری دوستی ہوگئی اور پھر پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اور سعید آسیؔ صاحب سے بھی۔ تحریک پاکستان کے دَوران مرزا شجاع اُلدّین بیگ امرتسری کا آدھے سے زیادہ خاندان سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوا اور میاں محمد اکرم طور ؔنے قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آباد کاری میں اہم کردار ادا کِیا تھا ۔ 
مَیں نومبر 1969ء میں لاہور شفٹ ہوگیا ۔ یکم نومبر 1971ء کو مَیں نے لاہور سے اپنا ہفت روزہ پنجاب اور 11 جولائی 1973ء کو روزنامہ ’’ سیاست‘‘ جاری کِیا۔ مئی 1991ء میں مَیں نے اپنا کالم ’’ سیاست نامہ ‘‘ ’’نوائے وقت‘‘ میں شروع کردِیا جو ڈیڑھ سال تک جاری رہا، ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میری کالم نویسی کا دوسرا دَور جولائی 1998ء سے جون 1999ء تک جاری رہااور تیسرا دَور اگست 2012ء سے جنابِ مجید نظامی کی وفات کے بعد بھی ۔ اِس دَوران مَیں نے پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے آدھی دُنیا کی سیر کی، ستمبر 1991ء میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن اور ’’نوائے وقت ‘‘ کے کالم نویس کی حیثیت سے اُنکے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ یقینا اِس کا ثواب جنابِ مجید نظامی کو بھی ملا ہوگا؟معزز قارئین! مَیں نے جنابِ مجید نظامی کی قومی خدمات پر اردو اور پنجابی میں کئی نظمیں لکھیں ۔ مَیں نے ملّی ترانہ بھی لکھا جس پر جنابِ مجید نظامی نے مجھے ’’شاعرِ نظریۂ پاکستان‘‘ کا خطاب دِیا!‘‘ جب پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے جنابِ مجید نظامی کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی گئی تو میری طرف سے ڈائریکٹر پروگرامز چودھری سیف اللہ نے نظم پڑھی ۔ملاحظہ فرمائیں …
’’بابا مجیدؔ نظامی ہوراں تے‘ رب‘ رسولؐ دا سایا اے‘‘
شاعرِ مشرق دے سُفنے نُوں ٗ خالِق آپ ٗ سجایا اے!
سُوہنے قائدِاعظم ٗ پاکستان دا بُوٹا ٗ لایا اے!
نظریۂ پاکستان ٗ دا وارث ساڈے ویہڑے ٗ آیا اے!
بابا مجیدؔنظامی ہوراں تے ٗ ربّ ٗ رسولؐ دا سایا اے!
قریہ‘ قریہ‘ قائدِاعظم دے‘ افکار نُوں‘ عام کِیتا!
پاکستان مخالف‘ سازشی لوکاں نُوں‘ ناکام کِیتا!
سچّا پاکستانی‘ حمِیدؔنظامی دا ‘ ماں جایا اے!
بابا مجیدؔنظامی ہوراں تے ٗ ربّ ٗ رسولؐ دا سایا اے!
ساری حیاتی ‘ ایس مسِیحا ‘ ٹُٹّے ہوئے ‘ دِل جوڑے!
راہِ براہِیمی ؑ تے ‘ چل کے ‘ آمرِیت دے ‘ بُت توڑے!
ویلے دے سب ‘ فرِعوناںؔ تے ‘ نمُروداؔں نُوں ڈھایا اے!
بابا مجیدؔنظامی ہوراں تے ٗ ربّ ٗ رسولؐ دا سایا اے!
قائداعظم دی ‘ ہمشِیر نُوں ‘ دِتّا مادرِ ؔمِلّت ‘ ناں!
لالٹین دی ‘ لو نال ‘ دُور ہنیرے کِیتے ‘ قوم دی ‘ ماںؔ!
جدوجہد عوامی ‘ ساڈِیاں یاداں دا ‘ سرمایا اے!
بابا مجیدؔ نظامی ہوراں تے ٗ ربّ ٗ رسولؐ دا سایا اے!
اللہ ھُو تے ‘ عِشقِ نبیؐ دی ‘ نماز نِیتی ‘ سُبحان اللہ!
ستّرؔ سال ‘ صحافت دی ‘ خدمت کِیتی ‘ سُبحان اللہ!
پنج دہائِیاں تِیکر ‘ ایڈیٹر دا رول ‘ نبھایا اے!
بابا مجیدؔنظامی ہوراں تے ٗ ربّ ٗ رسولؐ دا سایا اے!
ڈاکٹرِیٹؔ دِی ڈِگری ‘ اثرچوؔہان جی ‘ اِک اعزاز ‘ تے ہے!
ایس ڈِگری تے ‘ طالب عِلماں ‘ اُستاداں نُوں ‘ ناز ٗ تے ہے!
کرکے قبول ‘ نظامیؔ ہوراں ‘ ڈِگری دا مان ‘ ودھایا اے!
بابا مجیدؔنظامی ہوراں تے ٗ ربّ ٗ رسولؐ دا سایا اے!

مزیدخبریں