انکل مجھے روٹی اور سالن دلوادیں گے ؟میرے بہن بھائی صبح سے بھوکے ہیں ! یہ الفاظ ایک دس سے گیارہ سالہ بچے کے تھے جو چائے کے ڈھابے پر اچانک میرے سامنے آگیا ،میں اس بچے کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے رکا اور بجائے اس کی مدد کر نے کے اس کی طرف سے دیکھ کر یہ اندازہ کر نے کی کوشش کرنے لگا کہ کہیں یہ پیشہ ور بھکاری تو نہیں کہ اتنے میں مجھے ایک خاتون کی بے جان سے آواز سنائی دی جو اس بچے سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی تھے بولی! بھائی مہربانی کریں کھانا دلا دیں ، میرے بچے سچ میں صبح سے بھوکے ہیں ،یہ الفاظ ادا کر تے ہوئے خاتون نے اپنی نظریں جھکا لیں اور اپنا چہرہ تھوڑا سا دوسری طرف پھیر لیا ،شائد وہ اپنی آنکھوں میں آنے والے آنسو چھپانا چاہتی تھی یا شائد اپنے بیٹے کے سامنے رونا نہ چاہتی ہو،یا شائد وہ اس ظالم سماج کے اپنے ان رشتہ دار اور ہمسائیوں سے اپنا چہرہ چھپانا چاہتی تھی جو اس طرح کھانا مانگتے دیکھ کر طعنے مار مار کر اس کا جینا حرام کر دیتے،ایک اجنبی مرد سے کھانا تو وہ مانگ بیٹھی تھی لیکن اس کے ہاتھ اور ٹانگیں کانپ رہی تھیں ،مجھے یقین ہے اس کے سامنے بھوک سے بلکتے بچے اس کی مامتا کو مجبور نہ کر تے تو شائد وہ ہاتھ پھیلانے کی بجائے بھوک سے مرنا پسند کر لیتی ،اسے دیکھ کر میرا پورا جسم ایک بار کانپ گیا اور میری آنکھوں کے سامنے اپنے دس سالہ بیٹے اور چھوٹی بیٹیوں کی شکلیں گھوم گئیں ،میں اپنے آنسو نہ روک سکا اور فورا خاتون کو ڈھابے کے ایک طرف درخت کے نیچے کھڑا کر کے اس کے بیٹے کو ساتھ لیے ڈھابے والے کے پاس گیا اور بچے سے پوچھا کہ بیٹا کھانے میں کیا لینا ہے ؟بچہ فورا بولا ،انکل’’ دو سالن کی پلیٹیں اور پندرہ روٹیاں‘‘میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو بولا انکل میں اور میری تین چھوٹی بہنیں ہیں اور ایک میری امی ہیں پندرہ روٹیوں سے ہمارا تین وقت کا گزارہ ہو جائے گا ،میں نے ڈھابے والے کو کھا نے کی ادائیگی کی اور وہ روٹیاں لگانا لگا، واپس آیا تو خاتون اسی جگہ پر ایک طرف چہرہ چھپائے کھڑی تھی ،اس کی صحت اس طرح تھی کہ جسم تھا کہ سوکھا ہوا تنکا ،ہاتھوں کی رگیں تک نظر آرہی تھیں ،صاف نظر آرہا تھا کہ خوراک کی کمی کا شکار ہے ،میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا کہ آپ کا شوہر کیا کرتا ہے ؟بولی!نشہ کر تا ہے گھر بہت کم آتا ہے میں سامنے کچی آبادی میں رہتی ہوں،کسی گھر میں کام کر تی ہوں پہلے زیادہ گھروں میں کام کرتی تھی میری صحت خراب رہنے لگی اور بیمار ہو گئی اب ایک سے زیادو گھروں میںکام نہیں کر سکتی ،آ ج بھی صبح بچوں کو بھوکا چھوڑ کر کام پر گئی تھی بیٹا کہتا تھا کہ میں جاکر کسی سے کھانا مانگ کر لاتا ہوںاور بہنوں کو کھلا تا ہوں جب واپس آئی تو بچے اسی طرح بھوک سے بلک رہے تھے مجھ سے رہا نہیں گیا اور خود کھانا مانگنے نکل آئی ہوں ،میں پیشہ ور مانگنے والی نہیں ہوں، اس کے شوہر کے بارے میں میں نے مزید پو چھنے کی کوشش کی تو اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی !بس بھائی وہ شروع سے ہی ایسا ہے ایسے ہی ساری زندگی گزر گئی اور باقی بھی گزر جائے گی ،اتنے میں اس کا بیٹا کھانا لے کر آگیا اور وہ میرا شکریہ ادا کر کے چلی گئی ۔اس کے جا نے کے بعد میں سوچتا رہا کہ ایک دن کا کھانا تو میں نے دلا دیا کل کیا ہو گا اس کی زندگی کی یہ مشکلات کس طرح حل ہوں گی؟واپس دفتر آیا تو بے چین رہا رات گھر گیا تو نیند کوسوں دور تھی اور اس خوتون اور بچے کے چہرے میری آنکھوں کے سامنے گھومتے رہے ،مجھے اس طرح محسوس ہو تا تھا کہ اس بچے اور خاتون نے مجھے کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے اور مجھ سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہمارے بھی کچھ حقوق ہیں؟ کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں ؟کیا ہمارا اتنا بھی حق نہیں کہ دو وقت کا کھانا پیٹ بھر کھا سکیں ؟ میں مجرم بنا ٹکٹکی باندھے ان کی طر دیکھتا رہا لیکن کوئی جواب مجھ سے نہ بن پڑا، سوچتا ہوںہم ہر معاملے کی ذمہ داری ریاست پر ڈال دیتے ہیں لیکن کیا کوئی سماجی اور معاشرتی ذمہ داریاں بھی ہیں ؟کیا ایک معاشرے میں رہتے ہوئے لوگوں کے ہم پر حقوق نہیں؟ اگر حقوق ادا نہیں کریں گے تو کس منہ سے اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے ،ہم ریاست مدینہ کی باتیں تو کر تے ہیں لیکن کیا ہم خود اور ہمارے کردار ایسے ہیں کہ ریاست مدینہ میں رہنے کے قابل ہوں؟ ریاست مدینہ میں تو ہمسائیوں کا اس طرح خیال رکھا جاتا تھا جس طرح سگے بہن بھائیوں کا ،کیا یہ خاندان مسلمانوں کے دیس کا باسی نہیں وہ ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا یہ خاتون جس کچی آبادی میں رہتی ہے اس کے چاروں طرف اسلام کا نام لینے والوں کے گھر اور مارکیٹیں ہیں ،بڑے بڑے تاجر جو روزانہ لاکھوں کروڑوں کا کاروبار کر تے ہیں،اعلیٰ عہدوں پر فائز لاکھوں روپے تنخواہیں لینے والے سرکاری افسر ،ان کی بھی کوئی ذمہ داری ہے یا ریاست ہی کو سب کچھ کر نا ہے ؟ہم کس طرح روزقیامت اللہ کے سامنے پیش ہوں گے ؟ہمیں تمام ذمہ داریوں کا الزام ریاست اور حکومت پر ڈالنے کی بجائے اپنے کردار کو بھی دیکھنا ہے کہ کیا بطور مسلمان جو ذمہ داریاں ہم پرڈالی گئی ہیں ہم انہیں ادا کر رہے ہیں؟کیا ہم اپنے بچوں کو ضرورت سے زیادہ چیزیں لے کر دینے کے بجائے ان کی مدد کر نے کی کوشش کر تے ہیں جو اس کے زیادہ حقدار ہیں ؟ہمارے رویے ایسے بن چکے ہیں کہ چوکوں چوراہوں پر کھڑے پیشہ ور بھکاریوں کو راہ چلتے پچاس سو روپے دے کر اپنے دل کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ ہم نے اللہ کی راہ میں صدقہ خیرات کر دیا کیا اس طرح ہم نے اپنی ذمہ داری پور کر دی ؟کیوں ہمیں ایسے گھروںاور خاندانوں کی خبر نہیں ہوتی جو ہمارے ہمسائے بھی ہیں ہمارے ساتھ رہتے ہیں لیکن ہم ان کے فاقوں اور بھوک سے بلکتے بچوں سے بے خبر ہیں ؟ اگر معاشرتی ذمہ داری پوری کر نے کا یہی طریقہ تھاکہ راہ چلتے کو ئی مجبور نظر آئے اور اس کی مدد کردی جائے تو اللہ کے نبی اور صحابہ کرامؓکیوں لوگوں کے گھروںمیں جا کر یہ ذمہ داریاں نبھاتے رہے ؟کیوں خلفاء راشدین ؓ کو اپنی ذمہ داریوں کے ادائیگی اور حق داروں کے حقوق کی وجہ سے ساری ساری رات نیند نہ آتی تھی ،ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر نا ہو گا ورنہ زندگی تو ان کی بھی گزر جائے جو بھوکے پیٹ سوتے ہیں لیکن آخرت میں یہ اپنے حقوق کے لیے ہمارا گریبان ضرور پکڑیں گے پھر ہم اپنے رب کو کیا جواب دیں گے اور کس منہ سے رحمۃللعالمین کا سامنا کر پائیں گے جس کے امتی ہو نے کے ہم دعویدار ہیں ؟
دوپلیٹ سالن اور پندرہ روٹیاں
Oct 08, 2021