سرد جنگ کے دوران عالمی سطح پر مختلف ممالک کے درمیان تعلقات کی جنگ میں ’’ سوفٹ پاور ‘‘کی اصطلاح نے بہت سے معاملات کو دیکھنے لیے ایک نیا زاویہ متعارف کروایا تھا ۔جہاں جدید ٹیکنالوجی ، اسلحہ اور فوجیں بہت کچھ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں وہاں کسی قوم ، خطے یا ملک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے یا ان کے اثرورسوخ کو زائل کرنے کے لیے سوفٹ پاورکا استعمال بہت سود مند ثابت ہوتا ہے ۔ کافی عرصہ بعد شاید یہ پہلا موقع ہے دنیا پر کئی سالوں سے واحد سپر پاورامریکہ اس حالت میں ہے کہ اس کی فوج کسی کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہے بلکہ افغانستان سے پسپائی بھی اس انداز میں ہوئی کہ دنیا بھر میں اس کی رہی سہی ساکھ بری طرح متاثر ہو چکی ہے ۔ دوسری جانب تجارتی میدان اور اس سے بڑھ کر سائبر دنیا میں چین کے ساتھ امریکہ کو سخت چیلنج درپیش ہے ۔ جس وقت امریکہ اپنی ’’ہارڈ پاور‘‘ کے ذریعے دنیا میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھا چین ’’ سوفٹ پاور‘‘ کے ذریعے اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے میں مصروف تھا ۔ افغانستان میںامریکی افواج کی شکست نے طاقت کے توازن کو بری طرح بگاڑ دیا ہے اور جو نتائج امریکہ حاصل کرنا چاہتا تھا اس میں ناکام ہی نہیں ہوا بلکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے میں بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ چین نے ہمیشہ خطے میں اپنے معاشی توازن کو استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی اور وہ کسی قسم کی جارحیت سے ہمیشہ گریز کرتا رہا ہے ۔چین نے اپنے قیام کے ساتھ ہی پرامن بقائے باہمی کے جن پانچ اصولوں کو اختیار کیا تھا اسی کے مطابق دنیا کے ساتھ تعلقات استوار کررہا ہے بالخصوص ایشیا میں اس نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایک بڑی قوت ہونے کے باوجود برابری کی سطح پر باہمی احترام اور مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے علاقائی خودمختاری کا احترام رکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ2013میںپیش کیا جانے والا ’’ون بیلٹ ون روڈ ‘‘منصوبہ اس صدی کا سب سے بڑا ترقیاتی منصوبہ بلکہ چین کی معاشی سفارتکاری کا سب سے بڑا عملی قدم ہے ۔ یہ منصوبہ تجارتی لحاظ سے دنیا کے ساٹھ سے زائد ممالک کو جوڑ دے گا ۔ یہ منصوبہ زمینی سڑک اور ریل کے ذریعے چین کو ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ جوڑتے ہوئے یورپ تک پہنچ جاتا ہے ۔ اس منصوبے کی خوبصورت بات یہ ہے کہ چین اس منصوبے میں ترقی پذیر ممالک کو شامل کر رہا ہے تاکہ انہیں بھی ترقی کے مناسب مواقع فراہم ہو سکیں ۔ عالمی سطح پر بڑی طاقتیں اس منصوبے کے اعلان کے ساتھ ہی اپنے تحفظات کا اظہار کرچکی ہیں جبکہ اس کی مخالفت بھی کی جارہی کیونکہ ان کے نزدیک یہ چین کی جانب سے اپنی سیاسی ، ثقافتی،اقتصادی اور عسکری اثرورسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے تاہم اس کے باوجود جو ممالک اس منصوبے کا حصہ ہیں وہ اسے مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں اور اس میں شامل ہورہے ہیں ۔پاک چین اقتصادی راہداری اسی منصوبہ کا ایک اہم حصہ ہے ۔
پاک چین اقتصادری راہداری کا اعلان ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب پاکستان شدید قسم کے انرجی بحران سے گزر رہا تھا ۔یہی وہ وقت تھا جب افغانستان میں امریکی فورسز اور طالبان کے درمیان جنگ کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے تمام ممالک بالعموم اور پاکستان بالخصوص متاثر ہورہا تھا ۔افغانستان میں بھارتی عناصر کی موجودگی اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی میں ان کی مدد نے ملکی استحکام کو شدید خطرے سے دوچار کر رکھا تھا۔ تاہم پاکستان نے اس مشکل وقت کا سامنا بڑی جرات مندی کے ساتھ کیا اور اس مشکل گھڑی میں چین نے پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑا ہوا ۔ پاک چین اقتصادی راہداری بھی پاک چین لازوال دوستی کے ساتھ دہائیوں پر مشتمل سفر اور تعلقات کا مظہر تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ منصوبہ جہاں جنوبی ایشیا اور وسط ایشیائی ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا وہیں یہ چین مخالف عالمی اور علاقائی طاقتوں کی نظر میں خطے میں ان کی اجارہ داری کے خاتمے کا پیغام بھی تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کی سب سے پہلے بھارت اور امریکہ نے مخالفت شروع کی ۔ اگرچہ پاک چین تعلقات کسی طرح بھی پاک بھارت یا پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں استوار نہیں کیے گئے تاہم دونوں ممالک نے اسے ہمیشہ اپنے لیے تزویراتی خطرے کے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی ۔حالانکہ پاکستان اور چین پاک چین اقتصادی راہداری میں بھارت کی شمولیت کو مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں ۔ درحقیقت امریکہ چین کے اس منصوبے کو ایشیا میں اپنے اثرورسوخ کے خاتمہ کے طور پر دیکھ رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے میں چین ہی وہ واحد معاشی قوت ہے جو دیگر ممالک کے لیے مختلف مواقع پیدا کر سکتی ہے اور ان ممالک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے چین سے ذیادہ بہتر کسی کی پوزیشن نہیں ہو سکتی ۔
گزشتہ دنوں چارممالک امریکہ ، بھارت ، آسٹریلیا اور جاپان کا اجلاس اور تین ملکی برطانیہ ، امریکہ اورآسٹریلیا کے اجلاس بھی دراصل چین کے معاشی پھیلائو اور اثرورسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کا حصہ تھے ۔ بھارت نے تو چار رکنی ممالک کے اجلاس کو واضح طور پر پاکستان کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ چاروں ممالک نے موجودہ صورتحال میں پاکستان پر محتاط نظر رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح گزشتہ ماہ کے آخر میںامریکی سینیٹ میںایک بل پیش کیاگیا جس کے مطابق افغان جنگ میں امریکی شکست میں پاکستان کے کردار کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ پاکستانی وزراعظم عمران خان نے امریکی پسپائی کے بعد اپنے زمینی اڈے امریکہ کو فراہم کرنے کے حوالہ دوٹوک موقف اپنایا تھا کہ وہ کسی بھی طرح پاکستانی سرزمین کو استعمال نہیں کرنے دیں گے تاہم اس کے بعد امریکہ نے مختلف انداز میں دبائو ڈالنے کی کوشش کی کہ کسی طرح اسے پاکستانی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مل جائے تاہم اس میں بھی ناکامی کے بعد یہ بل پیش کیا گیا تاکہ امریکی پابندیوں کا دبائو ڈالا جا سکے ۔چار ممالک کے اجلاس اور آکس ممالک کے معاہدے کے بعد امریکی سینیٹرزکا یہ بل پیش کرنامحض اتفاق نہیں ہو سکتا کیونکہ خطے میں پاک چین تعلقات کو ہمیشہ سے بھارت اور امریکہ مخالف نظریات سے دیکھا گیا ہے جبکہ امریکی انخلاء کے بعد پاک چین کا افغانستان میں بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور علاقائی ممالک کا سی پیک کے ذریعے تجارتی ملاپ کو بھارت اور امریکہ دونوں اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھ رہے ہیں ۔ ان حالات میں یہ سمجھنا قطعی مشکل نہیں ہے کہ اس بل کو مستقبل میں پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور پاکستان پر پابندیاں بڑھا کر اس کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اب پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری کے ’’جرم‘‘ میں مزید قیمت دینی پڑ سکتی ہے جس کی کچھ کوششیں چینی انجئینرز پر حملوں اور ملک میں دہشت گردی کی لہر بڑھنے کی صورت میں ادا کرنی پڑ سکتی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے ادارے ان ممکنہ خطرات سے آگاہ ہیں ؟ اور اگر اس کا ادراک رکھتے ہیں تو اس کے لیے کس قدر تیاری کر رہے ہیں کیونکہ فورسز کے خلاف حملوں میں کچھ تیزی دیکھی گئی ہے جس سے بروقت نبٹا نہ گیا تو پھر پاکستان کو ایک نئے دہشت گردی کے دور سے گزرنا پڑ سکتا ہے ۔