پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر کے خطاب میں بے مثال قومی اتفاق رائے سامنے آیا۔ یہ اعزاز ماضی کے کسی صدر کے حصے میں نہیں آیا۔ ماضی میں ہر بار صدر کے خطاب کے موقع پر پارلیمنٹ منقسم نظر آئی۔ اس بار ایسا نہیں ہوا۔ تمام پارلیمنٹ نے متحد ہوکر صدر کے خطاب کا بائیکاٹ کیا۔ زہے مقدر‘ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔
حکومتی اتحادی جماعتوں نے اس لئے بائیکاٹ کیا کہ وہ صدر کو آرٹیکل چھ کا ملزم مانتی ہیں۔ وزیرداخلہ سمیت کئی وزراء نے صدر کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ پیپلزپارٹی کے شعلہ بیان لیڈر قادر مندوخیل نے کہا کہ میں ایسے آدمی کی تقریر سننا اپنی توہین سمجھتا ہوں جو پاکستان کے تین ٹکڑے کرنے کی بات کرتا ہو۔ اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی نے اس لئے بائیکاٹ کیا کہ وہ پہلے ہی سے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھی اور صدارتی خطاب کے موقع پر یہ تسلسل توڑنا نہیں چاہتی تھی۔ یوں مل ملا کر عدیم النظیر قومی اتحاد اور قومی اتفاق رائے پیدا ہو گیا اور اس اتحاد و اتفاق کا سہرا جناب صدر کے سوا کسی اور کے سر جاتا ہی نہیں ہے۔ زہے مقدر۔
ویسے کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی آخر وقت تک لاعلم رہی کہ حکومتی اتحاد بائیکاٹ کرے گا۔ پتہ چل جاتا تو شاید وہ ایوان میں جاتی تاکہ حکومتی اتحاد کے بائیکاٹ کو ناکام بنایا جائے اور قومی اتفاق رائے کے گمراہ سخن تاثر کو ختم کر دیا جائے‘ لیکن وہ بے چاری لاعلمی میں ماری گئی۔ زہے قسمت۔
…………
البتہ یہ جوکہاگیا ہے کہ ایوان بالکل خالی تھا اور اس میں الو بول رہے تھے‘ یہ غلط ہے۔ اول تو یہ کہ کوئی الو نہیں بول رہا تھا‘ صدر صاحب خطاب کر رہے تھے اور دوسری بات یہ کہ پونے پانچ سوکے ایوان میںچودہ ارکان موجود تھے لہٰذا یہ پھبتی کسنا ٹھیک نہیں کہ ایوان میں بندہ نہ بندے دی ذات والا معاملہ تھا۔ ہر بندے کو ایک ذات مان لیا جائے تو چودہ عدد ذاتیں موجود تھیں۔ صدر نے ان سے خطاب کیا اور جاتے جاتے ان 14 کا شکریہ ادا کیا۔ صدر صاحب مروت والے آدمی ہیں ورنہ ان چودہ سے یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ تم کیوں بیٹھے ہو‘ تم بھی جائو اور قومی اتفاق رائے میں اس رخنے کو پر کرو جو تمہاری وجہ سے پیدا ہو گیاہے‘ لیکن ایسا نہیں کہا۔
ایک نئی روایت یونہی کہ ایک مسلسل روایت ٹوٹ گئی۔ روایت یہ ہے کہ ایوان میں اس موقع پر ’’وہ‘‘ بھی آئے ہیں‘ لیکن اس بار ’’وہ‘‘ نہیں آئے۔ صدر صاحب بار بار اس جگہ کو دیکھتے رہے جہاں ’’وہ‘‘ بیٹھے ہونے چاہئیں تھے‘ لیکن وہ جگہ خالی تھی۔
…………
اس دوران صدر صاحب کے قائد عمران خان نے جس کی ایڈوائس پر صدر نے قومی اسمبلی توڑنے میں 20 منٹ بھی نہیں لگائے تھے‘ یہ دلچسپ اعلان کیا ہے کہ آرمی چیف کوئی بھی بن جائے‘ مجھے فرق نہیں پڑتا۔
واقعی ایسا ہے تو پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔ سننے میں تو یہی آرہا ہے کہ سارا جھگڑا نومبر کا ہے جس میں ’’تعیناتی‘‘ ہونی ہے اور خان صاحب کے اس بیان کے اگلے ہی روز پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ کچھ بھی ہو‘ ہم یہ تعیناتی نہیں ہونے دیںگے اور 29 نومبر سے پہلے ہی حکومت کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ مطلب یہ کہ چیف کوئی بھی ہو‘ عمران کو فرق نہیں پڑتا۔ ان کے پیروکاروں کو پتہ ہے۔
اور اگر بالفرض حکومت کو مذکورہ تاریخ سے پہلے پہلے اکھاڑ پھینکنے میں حسب سابق اور حسب روایت ناکامی ہوئی تو کسے فرق پڑے گا اور کسے نہیں۔ اور اگر عمران کا یہ کہنا درست ہے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا تو لاہور میں پارٹی اجلاس کے دوران انہوں نے یہ کیوں کہا کہ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ ہاتھ سے نکل گیا تو کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے؟
وقت تو بہت کم ہے‘ لیکن اکھاڑ پھینکنے کیلئے جتنی نفری درکار ہے‘ دستیاب نہیں ہورہی۔ پنجاب پارٹی والوں نے کہہ دیا ہے کہ بندے تو ہم لے ہی آئیں گے‘ لیکن جتنے آپ کہتے ہیں‘ اتنے نہیں۔پختونخوا والوں نے وعدہ کیا ہے کہ اس بار دس ہزار سے زیادہ لائیں گے۔ کیا یہ کافی رہیں گے؟
…………
عمران خان نے ایک بار پھر نیوٹرلز پر گرجت برست کی ہے اور کہا ہے کہ ڈاکو گھر پر حملہ کر دیں تو چوکیدار یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ نیوٹرل ہیں۔
چوکیدار انہوں نے فوج کو کہا ہے۔ اورفوج چوکیدار ہے تو پھر گھر کا مطلب وطن ہے۔ یعنی پاکستان نہ کہ بنی گالہ۔
خان صاحب کی باقی بات درست ہے البتہ ’’گھر‘‘ کا ترجمہ کرنے میں انہیں غلطی لگی ہے۔ شاید ’’بلیک ڈکشنری‘‘ میں یہی معنے لکھے ہوں‘ لیکن باقی دنیا بھر کی تمام ڈکشنریاں ایسا نہیں لکھتیں۔ خان صاحب معنے درست فرما لیں۔
…………
ہیکر جو کچھ کررہا ہے‘ وہ انسداد بے رحمی ٔ معصوماں والے قانون کے دائرے میں آتا ہے۔افسوس انصاف اور قانون کی بالادستی ختم ہو چکی ورنہ ہیکر بچ کے نہیں جا سکتا تھا۔
تازہ آڈیو جو لیک ہوئی ہے‘ وہ تحریک عدم اعتماد سے ایک دو دن پہلے کی ہے اور اس میں خان صاحب اپنے ساتھیوں کو بتا رہے ہیں کہ ارکان قومی اسمبلی تو میں خرید چکا ہوں‘ پانچ اور خرید لیں تو ہماری بات بن جائے گی اور ایسے موقع پر کوئی پروا نہ کریں کہ کیا ٹھیک ہے کیا غلط ہے۔ میں ہر حربہ استعمال کر رہا ہوں۔
خان کی ایمان افروز گفتگو ہے۔ چلئے اور نہ سہی تو اسی سے ایک بات تو صاف ثابت ہوگئی ہے کہ خان صاحب ٹھیک ہی کہتے تھے کہ ارکان اسمبلی کی منڈی لگی ہوئی ہے۔ بھیڑ بکریوں کی طرح خریدے جا رہے ہیں اوریہ کہ ارکان اسمبلی کی خریداری ’’شرک‘‘ ہے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ خان نے زندگی میں کبھی سچ نہیں بولا‘ اپنی رائے ٹھیک کر لیں۔کم سے کم خان صاحب نے یہ منڈی لگی ہونے والی با ت تو سچ ہی کی تھی۔
…………
اسلام آباد میں ناکہ بندیاں ہیں اور بحران کو ٹالنے کیلئے کنٹینر ہرسُو قطار اندر قطار کھڑے ہیں۔ رنگ برنگے کنٹینر، اودے اودے‘نیلے نیلے میلے میلے پیرہن ہیلی کاپٹر اور ڈرون نام کے اڑن کھٹولے تیار کئے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے ظلم و ستم ہوشربا اور داستان امیرحمزہ والی معرکہ آرائیوں جیسا معرکہ ہونے کو ہے۔
اتنے بندوبست کی ضرورت ہی کیا ہے۔ آسان راستہ یہ ہے کہ خان صاحب کے پانچ چھ معصومانہ‘‘ مطالبے یا فرمائشیں پوری کر دی جائیں۔ سارا بحران ختم ہو جائیگا۔ معصومانہ مطالبات کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ آرمی چیف اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرریوں کا اختیار خان صاحب کو دے دیا جائے۔ چیف جسٹس کی تقرری ’’میرٹ‘‘ کے مطابق کی جائے۔ یہاں واضح رہے کہ میرٹ خان صاحب کا تخلص ہے۔ نواز شریف مریم نواز کو پھر سے تاحیات نااہل اور تاحیات نظربند کر دیا جائے۔ بلاول کے الیکشن لڑنے پر پابندی لگائی جائے اور الیکشن کراکے خان صاحب کو چار چوتھائی اکثریت دلا دی جائے۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ حکومت اور ادارے ان معصوم فرمائشوں پر توجہ کیوں نہیں دے رہے۔ بچے معصوم ہوا کرتے ہیں اور لاڈلے بچے ازحد معصوم۔ یہ نکتہ بہرصورت ذہن میں رکھیئے۔