دورِجدیدکی سفارتکاری میں ریاستوں کے مابین معاشی سرگرمیاں ترجیح بن چکی ہیں۔امریکا اور چین دونوں دنیا پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں لیکن معاشی طور پر ایکدوسرے پر منحصر ہیں۔سال 2021ء میں امریکا اور چین کے درمیان اشیاء وخدمات کی تجارت تقریباً 755 ارب ڈالر کی تھی۔ اسطرح بھارت اورچین کے درمیان سرحدی تنازعہ جاری ہے مگر انکی دوطرفہ تجارت اورسرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، یہی حال چین جاپان اور جرمن اور فرانس کے مابین واضح ہے جو عالمی معاشی سرگرمیوں کی خصوصیت اورمفادات پر مبنی تعلقات اور اتحاد کا ہے۔ ملکوں کی ترقی میں علاقائی روابط کااہم کردار ہوتاہے،کوئی بھی ملک الگ تھلگ رہ کر ترقی نہیں کرسکتا، تجارت، گیس پائپ لائن، بجلی کی لائنز، سٹرک اور ریلوے کے ذریعے علاقائی ممالک کاباہم منسلک ہوناہی ترقی کاضامن ہے۔ پاکستان کی 91.2فیصد سرحد بھارت، افغانستان اورایران کیساتھ ہے، لیکن ہماری علاقائی تجارت محض 2ارب ڈالر سے بھی کم ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2021ء میں پاکستان کی اپنے 9 علاقائی ممالک کو برآمدات 5.7 فیصد کم ہوگئی، جو پاکستان کی مجموعی عالمی برآمدات کا محض 14.91 فیصد ہے۔ جبکہ پاکستان کے پاس خطے میں 110ارب ڈالر کا پوٹینشنل اورایک بڑی مارکیٹ ہے۔ بنیادی مسائل بشمول مسئلہ کشمیر پر اپنی پالیسی کوبرقراررکھتے ہوئے دیگر ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات قائم کیے جائیں تو یقینا ملک کوزیادہ محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان خطے کا گیٹ وے ہے۔ پاکستان، ایران، افغانستان، چین، روس اور وسط ایشیائی ممالک گیس، بجلی، آپٹک فائبر، سٹرک، ریلوے کے ذریعے منسلک ہو سکتے ہیں، پاکستان کو ترقی اورخوشحالی کیلئے توانائی میں خودانحصاری پیداکرنا ہوگی اورمتبادل توانائی کے ذرائع تلاش کرنا ہونگے، چین کو بھی ترکمانستان،ایران،افغانستان کیساتھ گیس پائپ لائن کے ذریعے منسلک کیاجا سکتا ہے۔پاکستان، ایران، افغانستان اور وسط ایشیا ء کیساتھ سٹرک اور ریلوے کے ذریعے منسلک ہو سکتے ہیں ۔درحقیقت افغانستان ہی وسط ایشیاء تک واحد راستہ نہیں بلکہ چین کے ذریعے سے بھی وسط ایشیاء تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے، پاکستان سے وسط ایشیاء تک سستا ترین فائبر آپٹک بچھایا جاسکتا ہے اس وقت وسط ایشیا تک روس، چین اورایران کے طویل راستوں کے ذریعے آپٹیکل فائبر جارہی ہے۔ اگرچہ پاکستان کو جیو پولیٹکس مسائل کا سامنا ہے، اسکے باوجود پاکستان نے گیس پائپ لائن بچھانے اور سی پیک کے منصوبے شروع کیے، آسیان ممالک نے اپنے اختلافات ختم کرکے علاقائی تجارت کو فروغ دیکرترقی کی۔ وسط ایشیائی ممالک کیساتھ سمندر نہیں لگتا، انہیں افغانستان اور پاکستان کے ذریعے بندرگاہوں تک رسائی کی ضرورت ہے، کاسا1000، تاپی اورایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبوں کومکمل کیاجانا چاہئے۔ پاکستان کو قومی انفراسٹرکچر کو ترقی دینے کی ضرورت ہے۔ علاقائی روابط کیلئے بزنس پلان مرتب کرنا ہوگا، اگردنیا کے دیگرخطے توانائی انفراسٹرکچر کے ذریعے باہم منسلک ہو کر ترقی کر سکتے ہیں توہم کیوں نہیں کرسکتے، دنیا کے دیگر خطے اتفاقی طورپر منسلک نہیں ہوئے لہذاپاکستان کو بھی اس کیلئے اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لاناہونگی۔پاکستان کی توانائی کا70 فیصد انحصار خلیجی ممالک پر ہے، پاکستان کو اپنے متبادل توانائی کے ذرائع استعمال میں لانا ہو گا۔ پالیسی سازوں کاٹیلی کمیونیکشن کے حوالے سے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، بھارت نے G-5جی سپیکٹرم کااجراکر دیااورہم تاحال 4G کو ملک کے مختلف حصوں میں فراہم نہیں کرسکے۔اس طرح اعلی تعلیم کا مقصدطلباکو نوکری کا حصول نہیں بلکہ اینٹرپرینوئرشپ، انوویشن، جدت، پیداواری اور بزنس آئیڈیاز پر مبنی ہونا چاہیے۔ ڈیجیٹل پاکستان کے آئیڈیا کے ساتھ تعلیم کوانڈسٹری کے ساتھ مکمل طورپر لنک اپ اوردنیا کے بہترین دماغوں کوپاکستان لایا جائے اورآئی ٹی وسکلڈپروفیشنلز ایکسپورٹ کیساتھ 2030 ء تک پورے پاکستان میں کم ازکم دس ہزار نئے اسٹارٹپس شروع کیے جائیں۔پاکستان دنیا بھر میں 26 ہزار فٹ بلند 14 برفانی چوٹیاں اورسات ہزار میٹر بلند 186 چوٹیاں گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں ترتیب سے منفرد اورسیاحت کیلئے آئیڈیل ہے مگر افسوس ملک کی ممکنہ سب سے بڑی منافع بخش سیاحت انڈسٹری تباہ حال ہے اور کل آمدنی صرف تین کروڑ ڈالر ہے جوجی ڈی پی کا صفر اعشاریہ ایک فیصد ہے، جبکہ دْنیا کے بیشمار ممالک نے سیاحت کو اکانومی کی مضبوط بنیاد بنایا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کیمطابق پاکستان میںکووڈ سے قبل سالانہ محض18ہزار غیرملکی سیاح آتے تھے، جبکہ اندازے کیمطابق پاکستان تفریحی ومذہبی سیاحت کی مد میں بہترانفراسٹکچر،سہولیات اورمحفوظ امیج کے ساتھ سالانہ 50ارب ڈالرزکماسکتا ہے۔پاکستان کو سیلاب کے بعد سخت معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جس میں افراط زرمیں اضافہ، زرمبادلہ ذخائر اور روپے کی قدر میں مزید کمی، کرنٹ اکائونٹ اور تجارتی خسارے میں اضافہ، قرضوں کی ادائیگیوں کا دبائو، غربت اور بیروزگاری میں اضافہ شامل ہیں۔ لہذا ترکمانستان اور ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے کومکمل ہونا چاہئے ترکمانستان اوروسط ایشیائی ممالک کیلئے پاکستان کی بہت زیادہ اہمیت ہے اورپاکستان کے ذریعے منسلک ہونے کے خواہاں ہیں۔ پاکستان وسط ایشیائی ممالک کیساتھ تجارت میں اضافہ کر سکتا ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ پوٹینشنل ہے، ہمارے پاس ایک بڑی مارکیٹ ہے جبکہ وسط ایشیائی ممالک کے پاس قدرتی وسائل ہیں لہذا علاقائی تعاون نہایت ضروری ہے اور یہ تعاون خطے میں امن لاتا ہے۔ سی پیک پاکستان کی علاقائی تجارت اور اقتصادی انضمام کیلئے مددگار ثابت ہوگا۔