بھارت مذہبی، معاشی اور معاشرتی رویوں سمیت تقریباً ہر حوالے سے پیچیدہ (complex) سوسائٹی ہے۔ بظاہر سیکولر چہرہ رکھنے والا یہ ملک مذہبی، طبقاتی اور ذات پات کے بہت الجھے اور پیچیدہ نظام میں جکڑا ہوا ہے،عمومی طور غالب اکثریت ہندو اور خصوصاً موجودہ حکمران جماعت اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے استحصال کے لیے کوئی نہ کوئی حربہ آزماتے رہتے ہیں حال میں ہی "گھر واپسی" کے نام سے ایک تحریک شروع کی گئی ہے جس کا مقصد ہندوؤں سے مسلمان ہونے والے قبائل جن کے آبا و اجداد صدیوں قبل مسلمان ہو گئے تھے کو واپس ہندومت میں طرف مائل کرنا ہے یعنی وہ لوگ جن کی سابقہ پشتوں کے سرے ہندومت سے جڑے ہوئے تھے لیکن ان کے آباؤ اجداد نے اسلام قبول کر لیا۔ بی جے پی کی ذیلی تنظیم آر ایس ایس نے اس تحریک کے تحت معاشرتی سہولیات، معاشی امداد انصاف و تحفظ کی فراہمی سمیت بیشمار پرکشش اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کو ہندومت کی طرف راغب کیا ہے چند گھرانے اس فریب کا شکار ہوئے بھی ہیں لیکن ہندومت کے پیچیدہ ذات پات کے نظام کی وجہ سے تادیر وہاں ٹک نہ سکے جو لوگ اب تک اسلام کی طرف پلٹ نہیں سکے وہ بھی وہاں مطمئن نہیں ہیں تبدیلی مذہب کے بعد سب سے اہم مسئلہ جو انھیں درپیش آتا ہے وہ یہ کہ ذات پات کے استحصالی نظام سے آلودہ پیچیدہ ہندو معاشرے نے انھیں قبول نہیں کیا۔ ان لوگوں کے ساتھ کھایا پیا جاتا ہے نہ ہی رشتہ داری استوار کی جاتی ہے۔ بچوں کی شادیاں ہونا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ مسلمان ان لوگوں سے رشتہ داری کر ہی نہیں سکتے اور مسلمان پس منظر کے باعث اچھے ہندو گھرانے میں رشتہ ہو نہیں سکتا لے دے کر دلت یا شودر بچتے ہیں جن سے شادی ہو سکتی ہے اس صورتحال میں کوئی کیسے ہندومت میں ٹک سکتا ہے آر ایس ایس نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ جو لوگ قبل از اسلام جس ذات سے تعلق رکھتے تھے واپسی بھی اسی ذات میں ہو گی لیکن یہ فارمولہ مکمل طور پر ناکام رہا کیونکہ اکثر ہندو مسلمانوں کے حسن سلوک اور برابری کے حقوق کے حصول کے باعث مسلمان ہوئے تھے مسجد میں برہمن،کھشرتی،ویش یا شودر کی کوئی تقسیم نہیں تھی سب ایک ہی جگہ عبادت کا حق رکھتے تھے جو لوگ صدیوں قبل اولیاء کرام کے ہاتھوں مسلمان ہوئے ان کی موجودہ نسلیں بلا تخصیص ذات رنگ نسل مزاروں پہ نہ صرف رسائی رکھتے ہیں بلکہ کھانے پینے اور رہن سہن کے برابر کے حقوق بھی رکھتے ہیں قبول اسلام کے بعد ماضی بے معنی ہو جاتا ہے اب بھلا اسلام کے اس خوبصورت نظام کا مقابلہ ہندومت جیسا فرسودہ روایات اور طبقاتی تقسیم کا شکار مذہب کیسے کر سکتا ہے جہاں آج بھی سیاسی سماجی محافل میں شریک افراد کی اہمیت ان کی ذات پات سے مشروط ہے۔ دوسری طرف مذہب تبدیل کرنے والے ان افراد کے مسلمان رشتہ دار بھی ان سے قطعہ تعلق کر لیتے ہیں ان کے ساتھ رشتہ داری قائم رکھنا تو درکنار ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا تک ترک کر دیا جاتا ہے ایسی ہی صورتحال کا سامنا اتر پردیش کے ضلع باغپت کے ایک خاندان کو کرنا پڑا اختر علی نامی شخص اپنے جواں سال بیٹے کے قتل پہ ساتھ نہ دینے پہ اپنے قبیلے کے لوگوں اور علاقے کے مسلمانوں سے سخت نالاں تھا اسی غصے اور دکھ میں اس شخص نے اپنے تینوں بیٹوں اور ان کے اہل خانہ سمیت ہندومت قبول کر لی لیکن صرف چند ماہ کے عرصے میں اس کے ایک بیٹے کے سوا تمام اہل خانہ نے دوبارہ اسلام قبول کر لیا یہاں بھی وجہ مسلمانوں کی جانب سے سماجی بائیکاٹ اور ہندوؤں کی جانب سے سرد مہری پہ مبنی رویہ تھا جس میں روٹی بیٹی کا مسئلہ سر فہرست تھا ان بھائیوں میں سے ایک کے بیوی بچے اسے چھوڑ گئے تھے جن سے صلح کی صورت قبول
اسلام ہی تھی لہذا اسے دوبارہ مسلمان ہونا پڑا جبکہ دوسرے کو فورآ ہی احساس ہو گیا کہ ان کی معاشرتی بقائ صرف اسلام میں ہی ہے۔ اس طرح کی تبدیلی مذہب اور پھر مذہب میں جلد واپسی کی کافی مثالیں موجود ہیں۔ گزشتہ برس شعیہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے ہندومت اختیار کر لی تھی جو اب تک اسی پہ قائم ہے لیکن حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں انھوں نے تسلیم کیا کہ مذہب تبدیل کر کے اسلام میں آنے والے کو قبول کرنے کی جو صلاحیت اسلام میں ہے ہندومت اس سے کوسوں دور ہے اسلام میں داخل ہونے کے بعد آپ کا ماضی غیر اہم ہو جاتا ہے جبکہ ہندومت میں ذات پات کے نظام کے باعث ماضی سے دامن چھڑا نہیں سکتے۔ گھر واپسی جیسے پرفریب نعرے کے خالق آج بھی ذات پات کے نظام سے نکلنے کی بات نہیں کرتے بلکہ اس کے اندر رہتے ہوئے شناخت دینے کی بات کرتے ہیں۔کولکتہ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے معروف پروفیسر یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد بیٹی روٹی کا رشتہ بنانے میں کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'کیا کوئی اعلی ذات ہندو کسی پسماندہ مسلمان کے گھر شادی کرے گا؟ وہاں کے دلتوں کا بھی یہی حال ہے۔
اگر کوئی مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس کی سماجی شناخت اس کے ساتھ آتی ہے بہتر ہے کہ گھر واپسی تحریک کا نام بدل کر نام واپسی رکھ دیں کیونکہ اس سارے معاملے میں گھر تو ہے ہی نہیں صرف نام کی تبدیلی ہی ہے' ایک ہندو پروفیسر کے یہ الفاظ چشم کشاء ہیں …ممتاز کالم نگار راجہ امیر اکبر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان کی روحانی فیوض و برکات سے لبریز اقبالیات پہ مبنی کتاب "اقبال بارگاہ رسالت میں" شائع ہو گئی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے بڑی کہنہ مشقی سے اقبال کے فارسی و اردو میں شان رسول اقدس میں کہے گئے اشعار کی تشریح پیش کی ہے۔یہ کتاب اس لیے بھی منفرد ہے کہ مصنف فرزند اقبال جناب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے شاگرد رہے ہیں ۔