گزارش صرف اتنی ہے! 


منگل کی شب سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹر تھریڈ پوسٹ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال دنیا کا دوسرا ادارہ ہے جسے جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل نے فل انٹر پرائز ایکریڈیشن دیتے ہوئے گولڈ سیل ایوارڈ کیا ہے۔  خان صاحب نے اس خبر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شوکت خانم ہسپتال میں کام کرنے والے ہزاروں کارکنان اور عطیات دینے والوں کا شکریہ ادا کیا۔ عمران خان کے مطابق اگست اور ستمبر 2022 میں 3 ہفتوں تک جاری رہنے وال کڑی پڑتال کے بعد شوکت خانم کے تحت قائم ہونے والے تمام ہی اداروں کو "جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل کی (تصدیقی) گولڈ سیل، جو کہ صحت کی سہولیات کی فراہمی میں عالمی سطح پر بہترین معیار کی علامت ہے، دے دی گئی"سابق وزیراعظم کی جانب سے دی گئی اس خوشخبری کی حقیقت جاننے کیلئے اگر آپ جے سی آئی کی ویب سائٹ پر جائیں تو ان کے مطابق ان کے پاس 22 ہزار سے زائد صحت کے ادارے رجسٹرڈ ہیں اور کیے گئے دعوے کے برعکس 1ہزار سے زائد ادارے گولڈ سیل حاصل کرچکے ہیں۔سال 2010 میں اسی ادارے کے مطابق ایک ہسپتال یا صحت کے ادارے کی ایکریڈیشن کا خرچ تقریبا ً 46 ہزار ڈالر کے لگ بھگ آتا تھا جبکہ 2017 میں وال سٹریٹ جنرل کی ایک خبر کے مطابق ایکریڈیشن کو برقرار رکھنے کی خاطر 37 ہزار ڈالر تک خرچ ہوتے تھے۔ اسی خبر کے مطابق سال 2015 تک انسپکشن کی مد میں 18ہزار ڈالر کا خرچہ بھی آتا تھا جو ہر 3 برس بعد کرائی جاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایکریڈیشن کروانے کیلئے شوکت خانم ہسپتال نے بھی یقیناً کروڑوں روپے ادا کیے ہیں۔
اب ذرا نان پرافٹ آرگنائزیشن کی مد میں رجسٹرڈ اس ادارے کے مالی معاملات پر نظر ڈالتے ہیں۔ جوائنٹ کمیشن آن ایکریڈیشن آف ہیلتھ کئیر آرگنائزئشنز کی سال 2019 کی ٹیکس ریٹرنز کے مطابق اس ادارے نے 192 ملین ڈالر کا ریونیو اکٹھا کیا۔ جب کہ اس کے کل اثاثوں کی مالیت سال کے اختتام پر 222 ملین ڈالر تھی۔ امریکی جریدے وال سٹریٹ جنرل ہی کی خبر کے مطابق سال 2013 میں اس نان پرافٹ آرگنائزیشن نے اپنے سی ای او کو تقریبا 1ملین تنخواہ کی مد میں ادا کیے۔
ادارے کی ساکھ کا یہ عالم ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے تحت ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ اس ادارے سے ایکریڈیشن لینے والے ہسپتالوں کی جانب سے مریضوں کو دی گئی سہولیات میں دیگر ہسپتالوں کی نسبت کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ عمران خان کے اس دعوے کے ثبوت کیلئے جے سی آئی کی ویب سائٹ پر تاحال کوئی مواد موجود نہیں۔ اور نہ ہی ایکریڈیشن کے اس عالمی ادارے نے ان 1 ہزار ہسپتالوں کے کارنامے اپنی ویب سائٹ پر آویزاں کر رکھے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں گولڈ سیل سے نوازا گیا۔ بھاری بھرکم فیسز وصول کر کے ایوارڈز دینے کا یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے مختلف سپانسر اکٹھے کر کے سالانہ بنیاد پر سماجی، سیاسی اور فلمی دنیا کے کارناموں کی بنیاد پر ایوارڈز شو منعقد کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں یا بھر سپانسر ملنے پر ایک دوسرے کو ایوارڈ دینے کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہتا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی اور دیگر زعمائ￿  کو چاہئے کہ پی آر اور مارکیٹنگ ہی کرانی ہو تو کم از کم کسی ایسے ادارے کا انتخاب کریں جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے اور نہ ہی عوام سے اکٹھی کی گئی رقم ضائع ہو۔

ای پیپر دی نیشن