انسانی زندگی لقمہ اجل اور دیو قامت عمارتیں زمین بوس ہوگئیں

 
مظفرآباد نمائندہ خصوصی 
 وسیم خان پروانہ
 افسوس ناک سانحہ ،قیامت خیز زلزلہ جس میںآج سے17برس قبل 74ہزار انسان لقمہ اجل بن گئے ، ایک لاکھ پچاس ہزار شدید زخمی ہوگئے جبکہ براہ راست 3 لاکھ 30 ہزار افراد کے سروں سے گھر کا سایہ اٹھ گیا۔8 اکتوبر 2005ء کو آزاد کشمیر سمیت ملک کے مختلف حصوں میں 7.6 کے زلزلہ وہ ہولناک سانحہ ہے جسے یاد کر کے دل دہل اور آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آج کے دن پاکستان و ریاست جموں و کشمیر تاریخ کے قیامت خیز اور دنیا  کے چوتھے بڑے زلزلہ کا شکار ہوا ۔ اس وقت وفاق میں سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف پاکستان کے صدر جبکہ (ق) لیگ اور دیگر اتحادیوں کے منتخب وزیراعظم شوکت عزیز تھے ۔ہفتہ کا دن تھاماہ رمضان کا تیسرا روزہ تھا، ملک بھر کی طرح ملک کے بالائی علاقوں صوبہ خیبر پختون خواہ  اور آزاد کشمیرکے دور دراز دلکش پہاڑوں پر واقع آبادیاں جن میں گڑھی حبیب اللہ، بالا کوٹ، کاغان، بٹگرام، مانسہرہ، شانگلہ،  راولا کوٹ، مظفراباد کے گردو نواح میں زندگی کے معمولات دفاتر اور اداروں میں عملہ کام کا آغاز کرچکا تھا،  خواتین  بچوں کو سکول کالج بھجوا کر گھریلو کام کاج میں مصروف اپنے پیاروں کے انتظار میں تھیں، سب کچھ پرسکون تھا۔سورج کے بلند ہوتے گھڑی جیسے ہی صبح کے 8 بج کر 52 منٹ پر پہنچی توآزادکشمیر کا دارلحکومت مظفرآباد قیامت کا منظر پیش کر نے لگا، صوبہ پنجاب، خیبر پختون خواہ اور آزادکشمیر میں زمین لرزنے لگی، معلوم ہواکہ ریکٹر اسکیل پر7 اعشاریہ 6  کی شدت سے  زلزلہ ہے، نے تباہی مچا دی ۔ ڈیڑھ سے دو منٹ تک شدید جھٹکے  اور مجموعی دورانیہ 6 منٹ آٹھ سیکنڈ میں سب کچھ بدل گیا، زلزلے کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلو میٹر دور تک ہزارہ ڈویژن تھا۔ 
صوبہ خیبر پختون خواہ، آزاد کشمیر اور پنجاب سے بری خبریں آنا شروع ہوگئیں، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ان جھٹکوں نے دس منزلہ رہائشی عمارت مارگلہ ٹاور کو زمین بوس کردیا ، وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہوا،ٹاور کے 120 اپارٹمنٹ تباہ ہوئے۔زلزلے نے پڑوس میں افغانستان، بھارت اور مقبوضہ کشمیر کو بھی متاثر کیا جہاں 450 افراد جاں بحق ہوئے لیکن خیبر پختون خوا ہ اور آزاد کشمیر میںسب سے زیادہ تباہی ہوئی۔ صوبہ خیبر پختون خواہ کے 5 اضلاع، ایبٹ آباد، مانسہرہ، شانگلہ، کوہستان اور بٹ گرام جبکہ آزاد کشمیر کے اضلاع مظفر آباد، باغ، راولا کوٹ، وادی نیلم،جہلم سمیت اطراف کے کئی علاقے مکمل تباہ ہوگئے۔ان علاقوں میں کئی گاؤں صفحہ ہستی سے مِٹ گئے۔پورا پاکستان  سوگ میں ڈوب گیا۔اطلاعات ملتے ہی سرکاری سطح پر امدادی کام کا آغاز کردیا گیا تھا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے فوری طورپر  پانچ ارب روپے کی امدادی پیکج منظور کرتے ہوئے تین روزہ سوگ کا اعلان کردیا گیا ۔ جبکہ سابق صدر پرویز مشرف نے سنگین صورتحال دیکھتے ہوئے عالمی برادری سے فوری مدد کی اپیل کی۔ملکی اور غیرملکی میڈیا نے اس واقعہ کو نمایاں جگہ دی جس کے بعدملک بھر کے فلاحی ادارے مدد کے لیے سرگرم ہوگئے۔
 عالمی برادری نے پانچ بلین ڈالرکی مالی امداد کی اور  اس موقع پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مالی امداد کے ساتھ بحالی میں بھی بھرپور مدد فراہم کی۔ آزادکشمیر کے بالائی علاقوں میں شدید سردی کی وجہ سے زندہ بچ جانے والوں کا جینا اور بھی مشکل ہوگیا۔ کشمیر کے دیگر علاقوں، پاکستان، تارکینِ وطن پاکستانی و کشمیریوں اور عالمی برادری نے اس زلزلے پر فوری طور پر اپنی امدادی کارویاں شروع کیں اور زلزلہ زدہ علاقوں میں لوگوں کوخوراک، گرم کپڑے، ٹینٹ، ، پینے کا صاف پانی اور دیگر ضروریات زندگی کو فی الفور پہنچانے کے لیے اقدام اٹھائے گئے۔ ان کارروائیوں میں سب سے زیادہ حصہ پاکستان کی بہادر افواج کا تھا۔ رہی سہی کسر 978 آفٹر شاک نے پوری کر دی 125 ارب  کا نقصان  ہوا جس میں سڑکیں ، یونیورسٹی، کالجز صحت مرکز ز ،وغیرہ شامل تھے، اس  قیامت خیز زلزلیسے 74ہزار افرادلقمہ اجل بنے جس میں 20 ہزار بچے شامل تھے۔ ایک لاکھ پچاس ہزار شدید زخمی ہوئے۔ 220000 بچے زلزلے سے براہ راست متاثر جبکہ 330000 افراد بے گھر ہوئے۔مجموعی طور پر28000 اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ زلزلے کی زد میں آیا جس نے 400 گاؤں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ متاثرہ علاقوں میں 16ہزار اسکول اور 80 فیصد صحت کے مراکز مکمل طور پر تباہ ہوئے۔ مظفر آباد میں 35 ہزار آٹھ سو تین افراد جاں بحق، 21ہزار 8 سو 66 افراد زخمی اور ایک ہزار 500 تاحیات معزور ہوئے۔ مظفر آباد میں ایک لاکھ 14 ہزار 410 مکانات تباہ ہوئے۔ ضلع باغ میں 19ہزار ایک سو 29 افراد جاں بحق 7 ہزار 4 سو اکیس افراد زخمی ہوئے، ضلع جہلم میں 407 افراد جاں بحق ایک ہزار پچیس زخمی، پلندری ،راولاکوٹ ، میر پور میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 92 ہزار 702 مکان تباہ ہوئے تھے، سرکاری اداروں میں زیادہ نقصان اسکول کالج اور یونیورسٹی کا ہوا تھا۔صوبائی ریلیف کمیشن کے مطابق زلزلے میں مجموعی طور پر خیبرپختون خوا میں 22708 افراد جاں بحق ہوئے جس میں بچے جوان نوجوان بزرگ مرد و خواتین شامل تھے جبکہ یہاں زخمیوں کی تعداد 40576 ریکارڈ کی گئی۔صوبے کے سات اضلاع میں مجموعی طور پر 3لاکھ 28ہزار 416 مکانات تباہ ہوئے۔ 
8 اکتوبر 2005  کے سانحہ  کے17 برس مکمل ہونے پر آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں دعائیہ تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے۔جس میں شہید ہونوالوں کیلئے  دعائیہ کلمات اور فاتح خوانی کی جائے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  کہ کیا ہم  متاثرہ لاکھوں خاندانوں کی بحالی کیلئے اپنا فرض ادا کر پائے ہیں اس قیامت خیز زلزلہ کے بعد  دو غیر ملکی کمپنیوں نے آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے لیے ایک ماسٹر پلان تیار کیا اس وقت 2006 میں سردار سکندر حیات خان، 2006 تا 2011 تک سردار عتیق احمد خان، 2011 تا 16 چودھری عبدالمجید، 16تا21 راجہ فاروق حیدر خان،21تا  2022 تک سردار عبدالقیوم خان نیازی اور اب  سردار تنویر الیاس خان کی حکومت ہے ۔عالمی سطح پر ملنے والی اتنی بڑی امداد جو پانچ بلین ڈالر بتائی گئی تھی کیا اس کا درست استعمال ہوا؟   بعد میں پیپلز پارٹی کی نے اپنے دور حکومت میں 55 ارب روپے کی رقم عالمی سطح پر ملنے والی پانچ بلین ڈالر کی امداد میں سے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں منتقل کر دی ۔ مظفرآباد عوامی اتحاد آزاد کشمیر پانچ بلین ڈالر کے آڈٹ کا مطالبہ بھی کرتا رہا مگر بے سود۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...