امن و آشتی ، بہبود انسانیت اور اتحاد و اتفاق کا انسانی جذبہ معاشرے میں بہتری کی علامت بنتا ہے ، معاشرے یا ا±مت میں اختلاف رائے کا عنصر پیدا ہونا فطرت کے منافی نہیں لہذاا±مت کا ایسا رویہ ناگزیر عوامل کی اصلاحی سطح کو مستحکم بنانے کا موجب بنتا ہے، رویے قدرت کے مظاہر ہیں ان کو ناں ہی ختم کیا جاسکتا ہے اور ناں ہی یہ مٹ سکتے ہیں ، البتہ رویوں میں معیوب اسباب کی بنا پر جو اختلافات جنم لیتے ہیں وہ قابلِ مذمت ہیں ، دورِ حاضر میں اختلافات جہل کی بنا پر معاشرتی بگاڑ کا موجب بنتے جا رہے ہیں جب کہ تعصب اور نفس پرستی پر مبنی اختلافات ا±مت کے زوال کا شاخسانہ ہیں۔
ریاض میں رابطہ عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر عبدالکریم العیسیٰ سے نگراں وزیر مذہبی امور انیق احمد نے ملاقات میں ا±مت مسلمہ میں اتحاد کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” وقت کا تقاضہ ہے کہ ا±مت کے تصور کو بحال کیا جائے “ یہ فکر بجا طور پر باعثِ مسرت اور فرحت قلب ہے ، عہدِ حاضر کا تقاضہ ہے کہ امتِ مسلمہ میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے اور نواجواں نسل میں بیداری کے لئے علامہ اقبال کے تصور ِ خودی کو اپنی ذات پر لاگو کیا جائے ، کھوئے ہوئے ا±مت کے تصور کا اضطراب اور عظمتِ رفتہ کی بحالی عظیم فلسفی شاعر حکیم الامت علامہ اقبال کے کلام میں عیاں ہے،
حکیم الامت علامہ اقبال نے اپنے فکر و فلسفہ کے ذریعے ایک ا±مت کا تصور اجاگر کیا جو کہ نبی پاک کی تعلیم کے عین مطابق ہے، لہذا آج بھی ا±مت کا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کا واحد حل اللہ کی کتاب قرآن مجید پرمکمل ایمان رکھ کر جمع ہوجانے میں مضمر ہے ،کیونکہ قرآن کریم میں ا±مت مسلمہ کا استحکام ،وقار، ترقی، خوشحالی اور ابدی مقصدیت کے اصول واضح ہیں، قرآن سے دوری ا±مت مسلمہ میں نفاق کا سبب بنی ہے۔
رواں صدی ہجری میں ا±مت کے ہر فرد میں مقاصد ، فرائض، اور نصب العین کا شعوراجاگر کرنے کی اہم ضرورت ہے ، ان کی سیاسی اور فکری سوچ ہی دنیائے افق پر اسلام کا غلبہ لا سکتی ہے ، آج دنیا میں اسلام فوبیا کا مقابلہ اخلاقِ حسنہ اور تدبر سے ہی کیا جاسکتا ہے ، موجودہ حالات متقاضی ہیں ، کہ اتحادِ ملت ، ا±مت کے تصور کی بحالی اور ا±مت کی بقاءاور عروج کے انحصارکو ممکن بنایا جائے ، اسلام زمانے کی تخلیق کردہ سرحدوں کی تمام بندشوں سے بالا بنی نوع انسان کے لئے امن و آتشی کی دعوت دینے والا دین ہے ، جو دنیا کے تمام مذاہب کو ترقی و خوشحالی کی ضمانت دیتاہے چونکہ دین اسلام ایک فطری اور استدلالی قوت ہے۔ا±مت کے تصور کی بحالی کا انحصاررویوں کا مرہونِ منت ہے جب کہ ا±مت کو متحد ہونے اور اسے قائم کرنے کاا نحصار بھی رویوں کا محتاج ہے ،
ا±مت کے تصور کی بحالی اور ہمارے رویے متضاد صورتحال میں گھرے ہوئے ہیں ، علاقائی اور گروہی تعصب کے شکار طبقوں میں بٹے ہوئے ہجوم کو ا±مت کے تصور کی بحالی پر وقت کی اہم ضرورت کا ادراک کیوں کر ہو سکتا ہے، پہلے ہم صوبائی تعصب میں شدید مبتلا رہے ، اب ہم نے طبقاتی اور مضافاتی تعصب کو اپنے سینوں میں سمو کر ا±مت کے تصور کی بحالی کو عمیق کہرائیوں میں دھکیل دیا ہے ،سیاسی لحاظ سے ا±مت منافقت کی حد کو عبور کر گئی ہے ، اب ا±مت کا تصور ذاتی انائ، نفس پرستی ، منافقت کی وجہ سے لادینی اوراستعماری قوتوں کی گرفت میں مقید ہو چکا ہے۔
ا±مت کے عروج وزوال پر بر صغیر کے دانشور اور مفکرین نے ا±مت ِ مسلمہ کو اپنی رائے اور تشویش سے باخبر کرتے ہوئے نوعِ انسان کو پستی سے نکالنے کے لئے عروج و ترقی کا راستہ دکھایا، جب کہ شکست میں گھری ا±مت کے زوال کی نشان دہی بھی کی ، ان مفکریں میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ، حکیم الامت علامہ محمد اقبال ، مولانا ابوالحسن ندوی ، ڈاکٹر سید حسن نصر ، مولانا ابوالکلام آزاد اور بدیع الزمان نورسی ہیں۔
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی سیاسی و دینی شعور کی بنیادی اہمیت کے حامل مفسرِ قرآن ،دانشور، محققِ دین فرماتے ہیں کہ ” جو قوم تحیقق کرنا ، اور علم حاصل کرنے کی کوشش چھوڑ دے، وہ جمود کا شکار ہو جاتی ہے ، اور جمود ہی انحطاط کی شکل اختیار کر لیتی ہے ، اور جب کوئی قوم انحطاط ہو جاتی ہے تو وہ دوسری قوم کے غلبہ میں غلامی میں چلی جاتی ہے ، مولانا تحقیق، علوم وفنون کو جمع کرنے، معلومات کی فراہمی اور ان کی ترتیب کو ایک تہذیب کے دائرے میں لانے کا درس دیتے ہیں جو کہ ایک غالب قوم کی پہچان ہوتی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ جب قرآن پر غور و فکر کرنا چھوڑ دیا گیا جب احادیث کی تحقیق اور چھان بین بند ہو گئی اور کتاب و سنت سے براہ راست اکتساب ِ علم ترک کر دیا گیا تو مسلمان خود بخود زوال کے شکار ہو گئے۔
علامہ محمد اقبال اسلامی فقہہ کی تدوین نو کے داعی تھے ان کو تشویش تھی کہ ” توحید کی تعلیمات شرک کے دھبوں سے کم وبیش آلودہ ہو گئیں ہیں اسلام کے حریت ، مساوات اور یکجہتی کی اصل صداقتوں کو دوبارہ دریافت کرنے کیلئے قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے ضرورت ہے۔
تمام مفکرین ِ اسلام ، بدیع الزمان نورسی ، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا ابو الحسن ندوی اور ڈاکٹر سید حسن نصر کے نقطہ نظر میں ا±مت کے تصورکی بحالی میں اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ مسلمان قرآن وسنت سے دوری، دوہرے تعلیمی نظام اور مغرب کی تقلید کی وجہ سے ا±مت کے تصور کو کھو چکے ہیں ، ا±مت کا اتحاد گروہی ، علاقائی ، نفس پرستی، منافقت اور فرقہ واری تعصب سے بالا تر ہو کر ہی ممکن ہے ، علامہ اقبال کی خواہش تھی کہ ا±مت کا کھویا ہوا مقام اتحاد و اتفاق کی رسی کو تھا م کر ممکن بنایا جائے، جسے انہوں نے اپنے کلام کی لڑیوں میں اس طرح پرویا کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر